Book Name:Maut Ka Akhri Qasid
حاصل کرنے اور عِبرت قبول کرنے والا دِل اور ذِہْن عطا فرمائے۔ ( [1] )
اٰمِیْن بِجَاہِ خَاتَمِ النَّبِیّٖنَ صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَ آلِہٖ وَسَلَّم ۔
قبر میں میت اُترنی ہے ضرور جیسی کرنی ویسی بھرنی ہے ضرور
مالِ وراثت سامانِ عشرت نہیں ، باعِثِ عبرت ہے
حضرت عمر بن عبد العزیز رَحمۃُ اللہ عَلَیْہ نے اپنے آخری خطبے میں فرمایا : اے لوگو ! تمہارے پاس جو مال ہے وہ مرنے والوں کا چھوڑا ہوا ہے ، بالآخر تم بھی اسے یہیں چھوڑ جاؤگے ، کیا تم نہیں جانتے کہ تم روزانہ صبح یاشام کے وَقت اس دنیا سے رخصت ہونے والے کے جنازے میں پیچھے پیچھے چلتے ہو ، تم اسے قَبر کے اس گڑھے میں اُتار آتے ہو جہاں نہ بچھونا ہے نہ تکیہ ، یہ مرنے والا اپنا سارا مال ومَتاع ( Possession ) یہیں چھوڑجاتا ہے ، دوست اَحباب سے جُدا ہوکر مٹی کو اپنا ٹھکانا بنا لیتا ہے ، حساب وکتاب کا سامنا کرتا ہے ، اُسی کا محتاج ہوتا ہے جو اِس نے آگے بھیجا ہوتا ہے اور جوکچھ وہ پیچھے چھوڑ جاتا ہے اس سے بے نیاز ہوتا ہے ۔ پھر حضرت عمر بن عبد العزیز رَحمۃُ اللہ عَلَیْہ آنکھوں پر کپڑا رکھ کر رونے لگے اور منبر ( Podium ) سے نیچے اُتر آئے۔ ( [2] )
قبر میں آہ ! گُھپ اندھیرا ہے روشنی ہو پئے رضا یارَبّ !
سانپ لپٹیں نہ میرے لاشے سے قبر میں کچھ نہ دے سزا یارَبّ !
نورِ احمد سے قبر روشن ہو وَحشَتِ قبر سے بچا یارَبّ ! ( [3] )