Book Name:Maut Ka Akhri Qasid

رَحمۃُ اللہ عَلَیْہ ایک ایک گھر گنواتے رہے ، یہاں تک کہ ہمارے گھر تک پہنچ گئے۔ ( [1] )   

جہاں میں ہیں عِبْرت کے ہر سُو نمونے                     مگر تجھ  کو  اندھا   کیا رنگ و  بُو نے

کبھی غور سے  بھی یہ دیکھا ہے  تُو نے                                جو آباد تھے وہ محل اب ہیں سُونے

جگہ جی   لگانے   کی  دنیا  نہیں ہے                                                            یہ عبرت کی جا ہے  تماشا نہیں ہے

پیارے اسلامی بھائیو ! غور فرمائیے ! یہ ہمارے بزرگانِ دین ، اللہ پاک کے نیک بندے ، کس کس انداز میں عِبْرت لیا کرتے تھے۔ آہ ! ایک ہم ہیں * وِیْران گھر * چولہے میں جلتی آگ * سُورج کی دُھوپ ( Sunshine ) * سردی ، گرمی وغیرہ سے عِبْرت لینا تو دُور کی بات ہے * ہماری آنکھوں کے سامنے جنازے اُٹھتے ہیں ، ہم عِبْرت نہیں لیتے * خُود اپنے ہاتھوں سے مُردَے قبر میں اُتارتے ہیں ، تب عِبْرت نہیں لیتے * فلاں بن فُلاں اچھا بھلا تھا ، اچانک ہارٹ اٹیک ( Heart Attack )  ہوا اور موت کے گھاٹ اُتر گیا * فُلاں نوجوان  روڈ ایکسیڈنٹ میں انتقال کر گیا ، ایسی بیسیوں خبریں ہم سنتے رہتے ہیں ، پھر بھی ہم اپنی موت کو یاد نہیں کرتے ، عِبْرت نہیں لیتے۔ کاش ! ہم عِبْرت لینے اور قبر و آخرت کو یاد کرنے والے بن جائیں۔

دل ہائے گناہوں سے بیزار نہیں ہوتا     مغلوب شہا ! نفسِ بدکار نہیں ہوتا

شیطان مُسلَّط ہے افسوس ! کسی صورت    اب صبر گناہوں پر سرکار نہیں ہوتا

اے رَبّ کے حبیب آؤ ! اے میرے طبیب آؤ  اچّھا یہ گناہوں کا بیمار نہیں ہوتا

گو لاکھ کروں کوشش اِصلاح نہیں ہوتی            پاکیزہ گناہوں سے کِردار نہیں ہوتا


 

 



[1]... حلیۃ الاولیاء،جلد:6 ،صفحہ:182 ،رقم:8222۔