Book Name:Faizan e Hazrat Junaid Baghdadi

عبادت  کے آثار نُمایاں تھے۔وہ لوگوں سے سُوال کر رہا تھا۔حضرت جنید بغدادی رَحمۃُ اللہ علیہ نے دِل میں سوچا؛ اگر یہ کوئی کام کر لیتا  اور سوال کی آفت سے بچ جاتا تو بہتر تھا۔

اسی رات آپ پر معمولاتِ شَب  ( یعنی نوافِل اور وظائِف وغیرہ )  دُشوار ہو گئے ، کسی کام میں آپ کا دِل نہیں لگ رہا تھا ، آپ یونہی جاگتے رہے ، بالآخر نیند غالِب آئی اور آپ سو گئے ، آپ نے خواب میں دیکھا کہ اسی فقیر کو لایا گیا ہے اور ایک دسترخوان پر لِٹا کر کہا گیا : اس کا گوشت کھاؤ ! کہ تم نے اس کی غیبت کی ہے۔ آپ نے کہا : میں نے اس کی غیبت تو نہیں کی ، ہاں ! اس سے متعلق دِل میں کچھ ایسا سوچا تھا۔جواب ملا : اے جنید ! تم ان لوگوں میں سے نہیں کہ جن سے ہم اتنی سی کوتاہی  بھی گوارا کریں ، جاؤ ! اس بندے سے معافی مانگو... ! !

صبح کو آپ اس فقیر کی تلاش میں نکلے ، وہ دریا کے کنارے پر تھا ، آپ نے اسے سلام کیا ، وہ فقیر بھی کوئی بلند رُتبہ تھا ، اس نے دیکھتے ہی کہا : اے جنید ! پھر ایسا کرو گے ؟  آپ نے کہا : نہیں۔ اس پر فقیر بولا : جاؤ ! اللہ تمہیں اور مجھے معاف فرمائے۔ ( [1] )

اللہ ُاَکْبَر ! پیارے اسلامی بھائیو ! غور فرمائیے ! ایک مسلمان کے بارے میں دِل میں ذرا سی منفی ( Negative )  بات سوچنے کا کتنا اَثَر ہوا ، یقیناً وہ فقیر نیک آدمی ہو گا اور کسی شرعِی مجبوری کے تحت ہی لوگوں سے سُوال کر رہا ہو گا ، حضرت جنید بغدادی رَحمۃُ اللہ علیہ کے دِل میں اس سے متعلق ایک منفی خیال آیا تو اس کے سبب آپ رات کی عِبَادت سے محروم کر دئیے گئے۔

آہ ! ہمارا حال تو بالکل بےحال ہے ، ہمارے ہاں صِرْف دِل میں سوچنے کی تو بات ہی نہیں ہے ، لوگ کھلے عام غیبتیں کرتے ہیں ، چغلیاں کھاتے ہیں ، دِل میں بدگمانیاں جماتے


 

 



[1]... روض الریاحین ، الحکایۃ الثامنۃ والعشرون بعد المائۃ ، صفحہ : 139خلاصۃً۔