Book Name:اِنَّا لِلّٰہ Parhnay Ki Barkatein
صَلّی اللہ عَلَیْہِ وَآلِہٖ وسَلَّم نے 3 بار فرمایا : اَلطِّیَرَۃُ شِرْکٌ ، اَلطِّیَرَۃُ شِرْکٌ ، اَلطِّیَرَۃُ شِرْکٌ بدفالی لینا شرک ہے ، بدفالی لینا شرک ہے ، بدفالی لینا شرک ہے ، پھر فرمایا : ہم میں سے ہر شخص کو ایسا ( یعنی بدشگونی جیسا ) خیال آجاتا ہے مگر اللہ پاک تَوَکُّل کے ذریعے اس خیال کو دُور فرمادیتا ہے۔ ( [1] )
اس حدیثِ پاک کے تحت عُلَمائے کرام فرماتے ہیں : زمانۂ جاہلیت میں لوگ بدفالی لیا کرتے تھے ، ان کا یہ عقیدہ تھا کہ بدشگونی کے تقاضے پر عمل کرنے سے ان کو نفع ( Benefit ) حاصِل ہوتا ہے مثال کے طور پر کوئی شخص کام کے لئے نکلا اور راستے میں بلّی نے اس کا راستہ کاٹ لیا ، اب اگر یہ واپس لوٹ آیا تو زمانہ جاہلیت کے لوگوں کا عقیدہ تھا کہ اس طرح کرنے سے ہمیں فائدہ ہوتا ہے ، اس لئے حدیثِ پاک میں بدشگونی کو شرک قرار دیا گیا ، اگر کوئی بندہ صِرْف بدشگونی لے اور ساتھ میں یہ عقیدہ بھی رکھے کہ ہوتا وہی ہے جو اللہ پاک چاہتا ہے ، اس کے عِلاوہ دُنیا کی کوئی طاقت ( Power ) اللہ پاک کی مَرْضِی کے خِلاف کچھ نہیں کر سکتی ، اس صورت میں بدشگونی لینا شِرْکِ خَفِی ( یعنی گُناہ کا کام ہے ) اور اگر کوئی بندہ یہ عقیدہ رکھے کہ مثلاً ستارے خود اپنی طاقت سے ، اللہ پاک کی مرضی کے خِلاف بھی اَثَر کر سکتے ہیں ، اس صورت میں یہ بدشگونی لینا شرکِ جَلِی ہےجو کہ کفر ہوتا ہے۔ ( [2] ) * سرکارِ عالی وقار ، مکی مدنی تاجدار صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَ آلِہٖ وَ سَلَّم نے فرمایا : مَنْ رَدَّتْہُ الطِّیَرَۃُ عَنْ شَیْءٍ فَقَدْ قَارَفَ الشِّرْکَ جو شخص بدشگونی کی وجہ سے کسی چیز سے رُک جائے وہ شرک میں آلودہ ہو گیا۔ ( [3] )
پیارے اسلامی بھائیو ! بدشگونی ( یہ ہے کہ کسی چیز ( مثلاً شخص ، عمل ، آواز یا وقت ) سے بُری