Book Name:اِنَّا لِلّٰہ Parhnay Ki Barkatein
اُتار دیا جائے گا ، جب تک اللہ پاک چاہے گا ، ہم وہاں رہیں گے ، پِھر ہمیں اس کی بارگاہ میں حاضِر ہونا ہے۔
یہ 2 سبق ہیں : ( 1 ) : میں بندہ ہوں ، لہٰذا مجھے چاہئے کہ ہمیشہ بندہ ہی بن کر رہوں ، علّامہ شعرانی رحمۃ اللہ علیہ بندگی کے آداب لکھتے ہوئے فرماتے ہیں : * جو بندہ ہوتا ہے وہ ہمیشہ اپنے مالِک ہی کی طرف مُتَوَجِّہ رہتا ہے ، کسی اور شَے کی طرف رُخ نہیں کرتا * دُنیوی عیش و عشرت ، مال و دولت ، آرام و سکون وغیرہ کے ساتھ لَو نہیں لگاتا ، ہمیشہ اپنے خالِق و مالِک جَلَّ شَانُہٗ سے ہی محبّت کرتا ہے * جو بندہ ہوتا ہے وہ ہمیشہ ہر حال میں اپنے مالِک کی رِضا میں راضی رہتا ہے * جو بندہ ہوتا ہے وہ کسی شَے پر اپنی ملکیت نہیں جتاتا ، ہمیشہ یہی سمجھتا ہے کہ میرے پاس جو کچھ ہے ، وہ میرے مالِک ہی کا ہے ، اسی نے اپنے فضل و کرم سے مجھے عطا کیا ہے ، وہ جب چاہے مجھ سے واپس بھی لے سکتا ہے * جو بندہ ہوتا ہے وہ کسی شَے پر فخر و غرور نہیں کرتا ، جو کچھ عِبَادت و اِطَاعت کر پاتا ہے ، اسے ہمیشہ کم ہی سمجھتا ہے ، کبھی ریاکاری ، دِکھلاوے اور خود پسندی ( Selfishness ) میں مبتلا نہیں ہوتا * اور جو بندہ ہوتا ہے وہ کبھی اپنے مالِک کی نافرمانی نہیں کیا کرتا۔ ( [1] )
یہ اِنَّا لِلّٰہ کا سبق ہے۔ ( 2 ) : اسی طرح وَ اِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْن میں فِکْرِ آخرت کا دَرْس ہے ، اگر ہم ہر وقت اپنا یہ ذہن بنائے رکھیں کہ اللہ پاک مجھے دیکھ رہا ہے ، میرا کوئی عَمَل ، کوئی خیال ، کوئی سوچ ، کوئی دِلی اِرادہ اس سے چُھپا ہوا نہیں ہے ، عنقریب مجھے اس کے حُضُور حاضِر ہونا ہے ، اپنے ہر ہر عَمَل کا جواب دینا ہے ، اگر یہ پکّا ذِہن بنا لیں تو اِنْ شَآءَ اللہ الْکَرِیْم ! ہمارا کردار بھی سَنْور جائے گا ، اَخْلاق بھی اچھے ہو جائیں گے ، گُنَاہوں سے بچنے