Book Name:Farooq e Azam ki Ajziyan

ہیں اور جتنے قیامت تک آئیں گے، ان سب میں نبیوں کے بعد اور حضرت صِدِّیقِ اکبر رَضِیَ  اللہُ عنہ کے بعد سب سے اَفْضَل، سب سے اُونچے رُتبے والے آپ ہی ہیں، حضرت مولائے کائنات، مولیٰ علی رَضِیَ  اللہُ عنہ جن کے جیسا بننے کی خواہش فرمائیں، خُود سوچ لیجئے! کہ وہ فاروقِ اعظم رَضِیَ  اللہُ عنہ کتنے اُونچے رُتبے والے ہوں گے، اتنے اَفْضل و اعلیٰ رُتبے والے ہونے کے باوُجُود آپ کا یہ کمال تھا کہ آپ خُود کو کچھ نہیں سمجھتے تھے، عام لوگوں کی طرح سادہ سی زندگی گزارا کرتے تھے۔ حضرت عامِر بن ربیعہ رَضِیَ  اللہُ عنہ فرماتے ہیں: ایک مرتبہ حضرت فاروقِ اعظم رَضِیَ  اللہُ عنہ حج کیلئے مکّہ پاک کی طرف روانہ ہوئے، پُورے سَفَرِ حج میں آپ نے جہاں بھی پڑاؤ کیا، راستے میں جہاں بھی ٹھہرے، نہ وہاں خیمہ لگایا، نہ کوئی شاہانہ انتظام کیا، بس کسی درخت پر چادر ڈالتے اور اس کے سائے میں بیٹھ جاتے تھے۔([1])

سُبْحٰنَ اللہ! کیا شان ہے...!! وقت کے خلیفہ ہیں، آدھی دُنیا کے اکیلے حکمران ہیں، اس کے باوُجُود کوئی پروٹوکول نہیں، کوئی اہتمام نہیں، سادہ سی چادر ہے، درخت پر ڈالتے ہیں اور اس کے سائے میں بیٹھ جاتے ہیں۔ یہ ہمارے بزرگوں کی ادائیں ہیں، ہمیں نہ جانے کہاں سے پروٹوکول کی عادَت پڑ گئی ہے* شادِی بیاہ وغیرہ تقریبات میں ہمارا اچھے سے استقبال نہ ہو تو ہمیں مزہ نہیں آتا*بیٹھنے کے لئے نمایاں جگہ نہ دِی جائے تو ناک بَھْنوَیں چڑھا لیتے یعنی بُرا منا لیتے ہیں*کوئی اگر آگے بڑھ کر*کھڑے ہو کر ادب سے سلام نہ لے تو دِل میں بُرے بُرے خیالات آنے لگ جاتے ہیں*کوئی ہماری شان کے خِلاف جملہ بَول دے تو آگ بگولا (یعنی غُصّے سے لال پیلے) ہو جاتے ہیں۔ کاش! عاجزی مِل جائے۔

دل سے غرور نکلے، بہر حضور نکلے                                             یارب! مجھے بنادے پیکر تو عاجزی کا


 

 



[1]...تاریخ الاسلام للذہبی، سنۃ ثلاث و عشرین، الوفیات، جلد:2، صفحہ:95۔