Karbala Ke Jaan Nisaron

Book Name:Karbala Ke Jaan Nisaron

درمیانِ دوزخ و جنّت کے کھڑا ہوں میں یہاں              خوفِ دوزخ سے ہُوں اس وقت بےتاب و تواں

ابھی یہ باتیں ہو ہی رہی تھیں کہ ایک بار پِھر امامِ عالی مقام، امام حُسَینرَضِیَ اللہُ عنہکی آواز گونجی، فرمایا: کوئی ہے جو آج آلِ رسول پر جان قربان کرے اور رسولِ کائنات صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَ آلِہٖ وَ سَلَّم کے حُضُور کامیابی پائے...!!

اللہ! اللہ! یہ پیاری آواز سننے کی دیر تھی، حضرت حُرْ رَحمۃُ اللہِ عَلَیْہ نے گھوڑا دوڑا دیا، یزیدی ظالِم سمجھ رہے تھے کہ شاید امامِ عالی مقام پر حملہ کرنے جا رہے ہیں مگر یہاں تو مُعَاملہ کچھ اَور ہی تھا، حضرت حُرْ رَحمۃُ اللہِ عَلَیْہ امامِ عالی مقام کی خِدْمت میں حاضِر ہوئے، گھوڑے سے اُترے، ادب کے ساتھ کھڑے ہوئے، عرض کیا: اے اِبْنِ رسول! میں وہی حُرْ ہوں، جس نے پہلے آپ کا راستہ روکا تھا، میری غلطی مُعَاف فرما دیجئے! اور آج اَہْلِ بیت پر اپنی جان قربان کرنے کی اجازت دے دیجئے! امامِ عالی مقام، امام حُسَینرَضِیَ اللہُ عنہنے ان کی معذرت قبول فرمائی اور انہیں اپنے لشکر میں شامِل فرما لیا۔

حُرْ کو جنّت بھی ملی، اَوجِ شہادت بھی مِلا                        اِک نظر میں شاہ نے قطرے کو دریا کر دیا

 جب حضرت حُرْ کے بھائی مُصْعَب بن یزید نے یہ منظر دیکھا تو انہیں بھی جوش آیا، انہوں نے بھی گھوڑا دوڑایا اور اَہْلِ بیتِ اَطْہَار کے پاک لشکر میں شامِل ہو گئے۔

دورانِ جنگ یہ دونوں بھائی اور ان کا ایک غُلام خُوب لڑے، اکیلے حضرت حُرْ رَحمۃُ اللہِ عَلَیْہ نے تقریباً 40 یزیدیوں کو جہنّم پہنچایا  ([1])آخر چوٹ کھا کر گِرے اور شہادت کا جام پِی کر جنّت کی طرف بڑھ گئے۔ ([2])


 

 



[1]...شامِ کربلا، صفحہ:255۔

[2]...سوانح کربلا، صفحہ:146 تا 150 ملخصاً۔