Book Name:Karbala Ke Jaan Nisaron
ہیں مگر ترجِیح کس کو دی جاتی ہے؟ افسوس! لوگ کام کاج کو ترجیح دیتے ہیں، دُکانداری کو ترجیح دیتے ہیں، دُنیوی ضروری کاموں کو ترجیح دیتے ہیں، معمولی معمولی کاموں کی خاطِر جماعت چھوڑ دیتے ہیں بلکہ نماز تک قضا کر دیتے ہیں *ہم جانتے ہیں روزہ رکھنے سے جنّت ملتی ہے مگر کتنے ایسے ہیں، جو رَمْضَانُ الْمُبارَک کے فرض روزے بھی قضا کر ڈالتے ہیں *ہم جانتے ہیں کہ تِلاوت کرنے سے جنّت ملتی ہے مگر افسوس! کئی کئی مہینوں تک قرآنِ کریم کی زِیارت تک نصیب نہیں ہوتی *ہم جانتے ہیں کہ ذِکْرُ اللہ کی برکت سے جنّت ملتی ہے مگر فضول گپ شپ سے، سوشل میڈیا سے فرصَت ہی نہیں ملتی*ہم جانتے ہیں کہ اچھے اَخْلاق جنّت میں جانے کا ذریعہ ہیں مگر کیا کریں؟ غُصّہ بہت آتا ہے*ہمیں معلوم ہے کہ ماں باپ کی خِدْمت دوجہاں میں کامیابی کا ذریعہ ہے *ہم جانتے ہیں کہ سچّ جنّت کا اور جھوٹ جہنّم کا رستہ ہے *ہم جانتے ہیں کہ لڑائی جھگڑے، گالی گلوچ وغیرہ جہنّم میں جانے کا سبب ہیں *ہمیں یہ بھی معلوم ہے کہ گانے باجے وغیرہ گُنَاہ جہنّم میں لے جاتے ہیں مگر افسوس...!! ہمارے ہاں عام طَور جنّت میں لے جانے والے اَعْمال کو نہیں بلکہ جہنّم کا حقدار بنانے والے کاموں کو ترجیح دی جاتی ہے۔
اے عاشقانِ اَہْلِ بیت! سُن لیجئے! حضرت حُرْ رَحمۃُ اللہِ عَلَیْہ کی زندگی ہمیں یہ سبق دے رہی ہے کہ سَر کٹتا ہے تو کٹ جائے، جان جاتی ہے تو چلی جائے مگر ایک مسلمان کا قدم اُٹھتا ہے تو صِرْف جنّت کی طرف اُٹھتا ہے، ایک مسلمان طلبگار ہے تو صِرْف جنّت کا طلبگار ہوتا ہے، مسلمان مال و دولت، عیش و عشرت، شہرت و عزّت کو نہیں دیکھتا، ایک سچّا مسلمان اللہ و رسول کی رضا کے پیچھے چلتا ہوا ، جنّت میں پہنچنے کی کوشش کیا کرتا ہے۔ یہی مسلمان