Book Name:Dore Jahalat Ki Nishani
اِسلام اس سے منع کرتا ہے۔ پارہ:26 ، سورۂ حجرات ، آیت:11 میں ارشاد ہوتا ہے:
وَ لَا تَلْمِزُوْۤا اَنْفُسَكُمْ
تَرْجمۂ کَنْزُالعِرْفان:اور آپس میں کسی کو طعنہ نہ دو۔
تفسیر صراطُ الجنان میں ہے:یعنی زبان یا اِشارے کے ذریعے ایک دوسرے پر عیب نہ لگاؤ، کیونکہ مؤمن ایک جان کی طرح ہیں، جب کسی مؤمن پر عیب لگایا جائے گا تو گویا اپنے پر ہی عیب لگایا جائے گا۔([1])
آہ! اب ہمارے ہاں دوسروں کو طعنے دینے کی وبا بھی بہت عام ہے*کوئی سُنّتیں اپنائے*اپنا اُٹھنا بیٹھنا*چلنا پھرنا*کھانا پینا*پہننا وغیرہ سُنّت کے مطابق کر لے تو اس پر طعنوں کے تِیر برسائے جاتے ہیں*غریب کو غُرْبت کا طعنہ دیا جاتا ہے*کبھی کسی کی ذات کو کمتر سمجھ کر اُس کی ذات کا طعنہ دیا جاتا ہے (حالانکہ کوئی ذات ذلیل یا کمتر نہیں، عزّت کا معیار تقویٰ ہے) * کوئی مزدوری کرتا ہے تو اسے مزدوری کا طعنہ*کوئی ٹھیلہ لگاتا ہے تو اسے ٹھیلہ لگانے کا طعنہ*جس کے ہاں صرف بیٹیاں ہی بیٹیاں ہوں، بیٹا نہ ہو، (حالانکہ بیٹی اللہ پاک کی رحمت ہے، اس کے باوُجُود) اسے طعنے دئیے جاتے ہیں۔
رشتوں کا لین دین ہو یا خدانخواستہ طلاق وغیرہ کا معاملہ ہو جائے، تب تو شیطان خُوب کھل کر کھیلتا اور خُوب طعن و تشنیع کی آفت میں مبتلا کرتا ہے۔ کاش! ہم اللہ و رسول کی تعلیمات کو سچّے دِل سے عملی طَور پر اپنا لیں...!
تجھ کو گر رُتبۂ عالی کی طلب ہے بھائی! غور سے سُن! تجھے ہستی کو مٹانا ہو گا
بھائیو! چاہئے گر رَبِّ مُحَمَّد کی رضا خود کو مَحْبُوب کی سُنّت پہ چلانا ہو گا([2])