Book Name:Ghazwa e Badar Aur Seekhne Ki Baatein
جائے گا، چنانچہ اس کا سر کاٹ کر اس کے چچا کے بیٹے کے سامنے پیش کیا گیا، اس نے کچھ دِن تو اس کے سَر کو اسی کےمحل میں لٹکائے رکھا، پھر چوراہے پر لٹکا دیا۔ ([1])
ملے خاک میں اَہْلِ شاں کیسے کیسے مکیں ہو گئے لامکاں کیسے کیسے
ہوئے نامور بےنشاں کیسے کیسے زمیں کھا گئی نوجواں کیسے کیسے
جگہ جی لگانے کی دُنیا نہیں ہے یہ عبرت کی جا ہے، تماشا نہیں ہے
اللہُ اکبر! پیارے اسلامی بھائیو! کیسی عبرت کی بات ہے، وقت کا بادشاہ ہے، اللہ و رسول کی فرمانبرداری سے باہَر ہوا، نافرمانی کی راہ لی تو قہر برس گیا۔ پتا چلا؛ تباہی کا سَفَر اللہ و رسول کی نافرمانی سے شروع ہوتا ہے۔ لہٰذا ہمیں چاہئے کہ ہر دَم اللہ و رسول کے فرمانبردار رہیں۔
افسوس! ہمارے ہاں یہ ایک دَسْتُور بنتا چلا جا رہا ہے، لوگ شریعت سے زیادہ اپنے مزاج کو دیکھتے ہیں۔ جو دِل میں آتا ہے وہ کرتے ہیں، اللہ و رسول نے کیا فرمایا ہے؟ شریعت اس بارے میں کیا کہتی ہے، یہ سوچنا کم ہی گوارا کرتے ہیں *دِل میں آیا کہ کاروبار کرنا ہے، جو کرنے جا رہے ہیں، وہ حلال ہے یا حرام؟ جائِز ہے یا ناجائِز، اس کی پرواہ نہیں کی جاتی *شادِی بیاہ وغیرہ خوشی کا موقع ہو، جو دِل میں آتا ہے، وہ اہتمام کیا جاتا ہے، گانا باجا حرام ہے، اس کی پرواہ نہیں کی جاتی، ڈھول ڈھمکے کی شرعًا اِجازت نہیں ہے، اس کی پرواہ نہیں کی جاتی ، بس چونکہ ہم چاہتے ہیں کہ خوشی کے وقت گانے باجے ہوں، لہٰذا لوگ کرتے ہیں *لوگ کپڑے خریدتے ہیں، سِلواتے ہیں، کھاتے پیتے ہیں، ہزار طرح کے مُعَاملات کرتے ہیں، ان میں بھی بَس اپنے مزاج کو دیکھتے ہیں، میری چوائس کیا ہے؟ مجھے کیا اچھا لگتا ہے؟ یہ