وہی بھرتے ہیں جھولیاں سب کی

روشن ستارے

وہی بھرتے ہیں جھولیاں سب کی

*مولانا عدنان احمد عطّاری مدنی

ماہنامہ ستمبر 2024

بے طلب اپنے بھکاری کی بھرے جو جھولی                           ایسی سرکار بتادے کوئی سرکاروں میں([i])

پیارے رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اپنے صحابَۂ کرام رضی اللہُ عنہم کو مختلف لمحات اور جگہوں پر مختلف دعاؤں سے نوازا۔ اس مضمون میں وہ بابرکت دعائیں موجود ہیں جن سے صحابۂ کرام کو مالی فوائد حاصل ہوئے ۔

حضرت عروہ نےمال میں وسعت یوں پائی:رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے حضرت عُرْوہ بارِقی رضیَ اللہ عنہ کو ایک دینار دیا تاکہ وہ ایک بکری خرید لائیں، حضرت عروہ نے اس دینار سے دو بکریاں خریدلیں راستے میں ایک خریدار مل گیاآپ نے ایک بکری اس کے ہاتھ ایک دینار میں بیچ دی پھر ایک دینار اور ایک بکری لے کر بارگاہِ رسالت میں حاضر ہوگئے یہ دیکھ کر آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے آپ کے لئے برکت کی دعا کی۔ راوی کہتے ہیں: اگرحضرت عروہ بارقی مٹی بھی خریدتے تو اس میں بھی نفع پالیتے۔([ii]) ایک روایت کے مطابق کچھ سامانِ تجارت لایا گیا تو حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّمنے مجھے ایک دینار دیا اور ارشاد فرمایا:اے عروہ! تم  ہمارے لئے ایک بکری خرید لاؤ، حضرت عروہ رضیَ اللہ عنہ فرماتے ہیں: میں سامانِ تجارت کے پاس پہنچا اور ایک ساتھی سے بھاؤ تاؤ کرکے اس دینار کے بدلے دو بکریاں خرید لیں، ابھی واپس آرہا تھا کہ ایک آدمی مل گیا اس نے بکری کے ریٹ پوچھے اور خریدنی چاہی تو میں نے اسے ایک بکری ایک دینار کے بدلے میں بیچ دی پھر بارگاہِ رسالت میں حاضر ہوگیا اور عرض کی: یارسول اللہ! یہ آپ کا دینار اور یہ آپ کی بکری! پھر پورا واقعہ بیان کردیا، نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے یوں دعا دی: اللہ! اس کے سودے میں برکت دے، حضرت عروہ رضیَ اللہ عنہ فرماتے ہیں: میں اس کے بعد کوفہ میں ایک جگہ ”کناسہ “ کی طرف جاتا  تو گھر لوٹنے سے پہلے چالیس ہزار نفع کمالیا کرتا تھا۔([iii])

حضرت عبد الرحمٰن  بن عوف کے لئے دعائے برکت: ایک مرتبہ نبیِّ کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے صحابۂ کرام رضی اللہُ عنہم کو راہ ِخدا میں صدقہ دینے کی ترغیب ارشاد فرمائی تو حضرت عبد الرحمٰن بن عوف رضی اللہُ عنہ اپنے گھر سے چار ہزار درہم لے آئے اور بارگاہِ رسالت میں عرض گزار ہوئے: یارسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ! میرے گھر میں آٹھ ہزار درہم تھے چار ہزار راہ ِ خدا میں دیتا ہوں اور بقیہ چار ہزارگھر والوں کے لئے روک لئے ہیں ، یہ سن کر رحمتِ عالم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے مبارک ہونٹوں پر یہ دعا جاری ہوگئی: بَارَکَ اللہُ لَکَ یعنی اللہ تمہیں برکت دے، جو دیا ہے اس میں بھی اور جو گھر والوں کے لئے روکا ہے اس میں بھی۔([iv]) ایک مرتبہ برکت کی دعا یوں پائی کہ آپ نے ایک عورت سے گٹھلی بھر سونا بطورِ حق مہر نکاح کیا، نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: ا تمہیں برکت دے ولیمہ کرو اگرچہ ایک بکری سے ہی ہو۔([v]) بارگاہِ رسالت سے برکت کی اتنی دعائیں پالینے پر آپ فرماتے ہیں: میرا اپنے بارے میں یہ خیال ہے کہ اگر پتھر اٹھالوں تو بھی امید ہوگی اس کے نیچے سونا یا چاندی مل جائے گی۔([vi])

حضرت انس نے مال میں کثرت یوں پائی: اَللّٰھُمَّ اَکْثِرْ مَالَہٗ وَوَلَدَہٗ وَاَطِلْ عُمُرَہٗ وَاغْفِرْ ذَنْبَهُ یعنی اے اللہ! اس کے مال اور اولاد میں کثرت عطا فرما، اسے درازیِ عمر عطا فرما اور اس کی مغفرت فرما۔ تین دعاؤں کی مقبولیت کا جلوہ تودنیا ہی میں حضرت انس رضی اللہُ عنہ نے اس طرح دیکھ لیا کہ ہر شخص کا باغ سال میں ایک مرتبہ پھل دیتا تھا جبکہ آپ کا باغ سال میں دو مرتبہ پھل دیتا تھا بلکہ برکت کا یہ عالَم ہوا کہ حضرت انس رضی اللہُ عنہ کے باغ میں ایک ایسا گلِ ریحان تھا جس سے مشک کی خوشبو آتی۔([vii]) حضرت انس رضی اللہُ عنہ فرماتے ہیں: خدا کی قسم! (اس دعا کی برکت سے) میرا مال بہت زیادہ ہے اور آج میری اولاد اور اولاد کی اولاد سو کے قریب ہے۔([viii])

حضرت ابو امامہ نے مالِ غنیمت اور جان کی حفاظت یوں پائی: ایک مرتبہ نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے حضرت ابوامامہ باہلی رضی اللہُ عنہ کو جنگ پر روانہ کیا تو آپ نے بارگاہ ِرسالت میں عرض کی: یارسول اللہ! میرے لئے شہادت کی دعا کیجئے، نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے یوں دعا کی:اے اللہ! انہیں سلامت رکھ اور مالِ غنیمت عطا فرما ،آپ کہتے ہیں: پھر ہم نے جہاد میں حصہ لیا اور سلامت رہے اور مالِ غنیمت بھی حاصل کیا، پھر دوسری اور تیسری جنگ کے موقع پربھی میں نے یہی عرض کی تو حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے وہی دعادی، ہم ہر مرتبہ محفوظ و سلامت رہے اور بہت سارا مالِ غنیمت لے کر واپس پلٹے۔([ix])

حضرت حکیم نے تجارت میں کشادگی یوں پائی:ایک مرتبہ بحرین سے مال آیا نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے وہ مال صحابہ میں تقسیم کرنا شروع کیا،حضرت حکیم بن حزام رضی اللہُ عنہ فرماتے ہیں کہ جب مجھے بلایا اور مٹھی بھر کر مال عطا فرمایا تو میں نے عرض کی: یارسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم! یہ میرے لئے بہتر ہے یا اس میں آزمائش ہے؟ ارشاد فرمایا: تیرے لئے آزمائش ہے، حضرت حکیم بن حزام رضی اللہُ عنہ کہتے ہیں: میں نے وہ سارا مال واپس لوٹادیا اور عرض کی : خدا کی قسم ! اب میں آپ کے بعد کسی سے بھی تحفہ نہیں لوں گا، پھرعرض کی: یارسول اللہ! آپ میرے لئے برکت کی دعا کردیجئے، نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے یوں دعا کی:اے اللہ! اس کے سودے میں برکت ڈال دے۔ حضرت حکیم تجارت میں بڑے خوش نصیب تھے کہیں بھی کسی سودے میں آپ کو کوئی نقصان اور گھاٹا نہیں ہوا۔([x]) ایک مرتبہ حضرت حکیم بن حزام رضی اللہُ عنہ نے اپنا ایک مکان حضرت معاویہ رضی اللہُ عنہ کےہاتھ ایک لاکھ کے بدلے میں بیچا کسی نے کہا: آپ نے یہ مکان ایک لاکھ میں (اتنا سستا) کیوں بیچ دیا؟فرمایا:اللہ کی قسم! (بڑے فائدے میں بیچا ہے) میں نے اس مکان کو زمانۂ جاہلیت میں ایک مشکیزہ شراب کے بدلے میں خریدا تھا اب تم سب گواہ ہوجاؤ کہ مکان کی ساری رقم راہِ خدا میں دیتا ہوں۔([xi])

حضرت عبد اللہ نے سودے میں برکت یوں پائی:نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا ایک جگہ سے گزر ہوا تو دیکھا کہ حضرت عبد اللہ بن جعفر رضی اللہُ عنہما بچّوں کے کھیلنے کے لئے مٹی سے بنا ہوا کھلونا بیچ رہے تھے، زبان مبارک پر یہ بابرکت دعا جاری ہوگئی: اے اللہ! اس کے سودے میں برکت رکھ دے۔([xii]) ایک روایت کے مطابق حضرت عبد اللہ بن جعفر رضی اللہُ عنہما فرماتے ہیں کہ میں اپنے بھائی کی بکری کا سودا کررہا تھا کہ نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم تشریف لے آئے اور مجھے دیکھ کر کہا: اے اللہ! اس کے سودے میں برکت دے، آپ فرماتے ہیں: (بس اس دعا کا ملنا تھا کہ) اس کے بعد جو بھی چیز میں نے خریدی یا بیچی ہے اس میں مجھے برکتیں ملی ہیں۔ ([xiii])

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* سینیئر استادمرکزی جامعۃ المدینہ فیضان مدینہ کراچی



([i])قبالہ بخشش،ص214

([ii])ابن ماجہ،3/139، حدیث:2402

([iii])سبل الہدیٰ و الرشاد، 9/17

([iv])شرح الشفا لعلی القاری، 1/661

([v])بخاری،3/449،حدیث:5155

([vi])سبل الہدیٰ والرشاد ، 10/206

([vii])طبقات ابن سعد،7/14-ترمذی 5/451، حدیث: 3859 ملخصاً

([viii])مسلم، ص 1035، حدیث:6376

([ix])مسنداحمد،8/287، حدیث:22283- معجم کبیر، 8/91 ملخصاً

([x])معجم کبیر، 3/205، حدیث: 3136،سبل الہدیٰ والرشاد، 10/209

([xi])معجم کبیر،3/186،حدیث:3072

([xii])دلائل النبوہ للبیہقی،6/220

([xiii])تاریخ ابن عساکر، 27/257


Share