مخلوقاتِ الہٰی میں غوروفکر کی قراٰنی ترغیبات(دوسری اور آخری قسط)

قراٰنی تعلیمات

مخلوقات میں غوروفکر کی قراٰنی ترغیبات(دوسری اور آخری قسط)

*مولانا ابو النور راشد علی عطّاری مدنی

ماہنامہ ستمبر 2024

گذشتہ شمارے میں  بیان کیا گیا تھا کہ قراٰنِ کریم نے  مختلف مخلوقاتِ الٰہی میں غوروفکر کی دعوت دی ہے۔

کفارِ مکہ اللہ ربّ العزّت کی قدرت و اختیارات،  مرنے کے بعد جی اٹھنے اور دیگر صفاتِ الٰہیہ کے منکر تھے، قراٰنِ کریم نے کئی اسالیب سے غوروفکر پر ابھارا ہے،  آئیے ذیل میں  غوروفکر کی دعوت کے ان مختلف  طریقوں  کا مطالعہ کرتے ہیں:

پرندوں کی تخلیق میں غوروفکر پر ابھارنا

قراٰنِ کریم نے پرندوں کی پرواز، ان کے ہوا میں ٹھہرنے اور پروں کو پھیلانے اور سمیٹنے کو بیان کرتے ہوئے بھی ربِ کریم کی شانِ تخلیق میں غوروفکر کی ترغیب دلائی ہے، چنانچہ سورۃ النحل میں فرمایا:

(اَلَمْ یَرَوْا اِلَى الطَّیْرِ مُسَخَّرٰتٍ فِیْ جَوِّ السَّمَآءِؕ-مَا یُمْسِكُهُنَّ اِلَّا اللّٰهُؕ-اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ یُّؤْمِنُوْنَ(۷۹))

ترجَمۂ کنزُالعِرفان: کیا انہوں نے پرندوں کی طرف نہ دیکھا جو آسمان کی فضا میں (اللہ کے) حکم کے پابند ہیں۔ انہیں (وہاں) اللہ کے سوا کوئی نہیں روکتا۔ بیشک اس میں ایمان والوں کے لئے نشانیاں ہیں۔([i])

(اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

اسی طرح سورۃ الملک میں فرمایا:

(اَوَ لَمْ یَرَوْا اِلَى الطَّیْرِ فَوْقَهُمْ صٰٓفّٰتٍ وَّ یَقْبِضْنَﰉ مَا یُمْسِكُهُنَّ اِلَّا الرَّحْمٰنُؕ-اِنَّهٗ بِكُلِّ شَیْءٍۭ بَصِیْرٌ(۱۹))

ترجَمۂ کنزُالایمان:اور کیا انہوں نے اپنے اوپر پرندے نہ دیکھے پر پھیلاتے اور سمیٹتے انہیں کوئی نہیں روکتا سوا رحمٰن کے بیشک وہ سب کچھ دیکھتا ہے۔([ii])

(اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

زمین اور نباتات کی تخلیق میں غوروفکر پر ابھارنا

اللہ ربّ العزّت کی ہر مخلوق ایک عظیم شاہکار ہے، کسی ایک مخلوق پر غور کرنے والا بھی خالق و مالک کی شان و عظمت کو سمجھ لیتاہے، قراٰنِ کریم نے زمین اور نباتات میں بھی غور و فکر کی دعوت دی ہے چنانچہ فرمایا:

(اَوَ لَمْ یَرَوْا اِلَى الْاَرْضِ كَمْ اَنْۢبَتْنَا فِیْهَا مِنْ كُلِّ زَوْجٍ كَرِیْمٍ(۷) اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیَةًؕ-وَ مَا كَانَ اَكْثَرُهُمْ مُّؤْمِنِیْنَ(۸))

ترجَمۂ کنزُالایمان:کیا اُنہوں نے زمین کو نہ دیکھا ہم نے اس میں کتنے عزت والے جوڑے اُگائے بےشک اس میں ضرور نشانی ہے اور اُن کے اکثر ایمان لانے والے نہیں۔([iii])

(اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

مراحلِ تخلیق میں غوروفکر پر ابھارنا

سورۃ العنکبوت میں فرمایا:

(اَوَ لَمْ یَرَوْا كَیْفَ یُبْدِئُ اللّٰهُ الْخَلْقَ ثُمَّ یُعِیْدُهٗؕ-اِنَّ ذٰلِكَ عَلَى اللّٰهِ یَسِیْرٌ(۱۹) قُلْ سِیْرُوْا فِی الْاَرْضِ فَانْظُرُوْا كَیْفَ بَدَاَ الْخَلْقَ ثُمَّ اللّٰهُ یُنْشِئُ النَّشْاَةَ الْاٰخِرَةَؕ-اِنَّ اللّٰهَ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌۚ(۲۰))

ترجَمۂ کنزُالعِرفان: اور کیا انہوں نے نہیں دیکھا کہ الله پیدا کرنے کی ابتداء کیسے کرتا ہے؟ پھروہ اسے دوبارہ بنائے گا بیشک یہ الله پر بہت آسان ہے۔تم فرماؤ زمین میں سفر کرکے دیکھو اللہ کیوں کر پہلے بناتا ہے پھر اللہ دوسری اُٹھان اُٹھاتا ہے بےشک اللہ سب کچھ کرسکتا ہے۔([iv])

(اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

سایہ کی تخلیق میں غوروفکر پر ابھارنا

قراٰنِ کریم نے خالقِ کائنات کی شانِ تخلیق پر غوروفکر کی ترغیب کے لئے سایہ کی تخلیق کو بھی ذکر فرمایا ہے اور اس میں غوروفکر کرکے شانِ ربّی سمجھنے پر ابھارا ہے، چنانچہ سورۃ النحل میں ہے:

(اَوَ لَمْ یَرَوْا اِلٰى مَا خَلَقَ اللّٰهُ مِنْ شَیْءٍ یَّتَفَیَّؤُا ظِلٰلُهٗ عَنِ الْیَمِیْنِ وَالشَّمَآىٕلِ سُجَّدًا لِّلّٰهِ وَهُمْ دٰخِرُوْنَ(۴۸))

ترجَمۂ کنزُالعِرفان: اور کیا انہوں نے اس طرف نہ دیکھا کہ اللہ نے جوچیز بھی پیدا فرمائی ہے اس کے سائے اللہ کو سجدہ کرتے ہوئے دائیں اور بائیں جھکتے ہیں اور وہ سائے عاجزی کررہے ہیں۔([v])

(اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

رات اور دن کی تخلیق میں غوروفکر پر ابھارنا

رات اور دن کے آنے جانے پر بھی غورو فکر کی دعوت دی گئی   ہے، چنانچہ سورۃ النمل میں ہے:

(اَلَمْ یَرَوْا اَنَّا جَعَلْنَا الَّیْلَ لِیَسْكُنُوْا فِیْهِ وَ النَّهَارَ مُبْصِرًاؕ-اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ یُّؤْمِنُوْنَ(۸۶))

ترجَمۂ کنزُالایمان:کیا انہوں نے نہ دیکھا کہ ہم نے رات بنائی کہ اس میں آرام کریں اور دن کو بنایا سوجھانے(دِکھانے) والا بےشک اس میں ضرور نشانیاں ہیں اُن لوگوں کے لیے کہ ایمان رکھتے ہیں ۔([vi])

(اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

تقسیمِ رزق میں غوروفکر پر ابھارنا

سورۃ الروم میں فرمایا:

(اَوَ لَمْ یَرَوْا اَنَّ اللّٰهَ یَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ یَّشَآءُ وَ یَقْدِرُؕ-اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ یُّؤْمِنُوْنَ(۳۷))

ترجَمۂ کنزُالایمان:اور کیا انہوں نے نہ دیکھا کہ اللہ رزق وسیع فرماتا ہے جس کے لیے چاہے اور تنگی فرماتا ہے جس کے لیے چاہے بےشک اس میں نشانیاں ہیں ایمان والوں کے لیے۔([vii])

(اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

نظامِ آب اور کھیتی کی تخلیق  میں غوروفکر پر ابھارنا

(اَوَ لَمْ یَرَوْا اَنَّا نَسُوْقُ الْمَآءَ اِلَى الْاَرْضِ الْجُرُزِ فَنُخْرِجُ بِهٖ زَرْعًا تَاْكُلُ مِنْهُ اَنْعَامُهُمْ وَ اَنْفُسُهُمْؕ-اَفَلَا یُبْصِرُوْنَ(۲۷))

ترجَمۂ کنزُالایمان:اور کیا نہیں دیکھتے کہ ہم پانی بھیجتے ہیں خشک زمین کی طرف   پھر اُس سے کھیتی نکالتے ہیں کہ اس میں سے اُن کے چوپائے اور وہ خود کھاتے ہیں  تو کیا انہیں سوجھتانہیں ۔([viii])

(اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

اللہ کی قدرت و اختیارات میں غوروفکر پر ابھارنا

(اَفَلَمْ یَرَوْا اِلٰى مَا بَیْنَ اَیْدِیْهِمْ وَ مَا خَلْفَهُمْ مِّنَ السَّمَآءِ وَ الْاَرْضِؕ-اِنْ نَّشَاْ نَخْسِفْ بِهِمُ الْاَرْضَ اَوْ نُسْقِطْ عَلَیْهِمْ كِسَفًا مِّنَ السَّمَآءِؕ-اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیَةً لِّكُلِّ عَبْدٍ مُّنِیْبٍ۠(۹))

ترجَمۂ کنزُالایمان:تو کیا انہوں نے نہ دیکھا جو ان کے آگے اور پیچھے ہے آسمان اور زمین  ہم چاہیں تو انہیں  زمین میں دھنسادیں یا ان پر آسمان کا ٹکڑا گرادیں بےشک اس  میں نشانی ہے ہر رجوع لانے والے بندے کے لیے۔([ix])

(اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

چوپایوں کی تخلیق میں غوروفکر پر ابھارنا

(اَوَ لَمْ یَرَوْا اَنَّا خَلَقْنَا لَهُمْ مِّمَّا عَمِلَتْ اَیْدِیْنَاۤ اَنْعَامًا فَهُمْ لَهَا مٰلِكُوْنَ(۷۱) وَ ذَلَّلْنٰهَا لَهُمْ فَمِنْهَا رَكُوْبُهُمْ وَ مِنْهَا یَاْكُلُوْنَ(۷۲) وَ لَهُمْ فِیْهَا مَنَافِعُ وَ مَشَارِبُؕ-اَفَلَا یَشْكُرُوْنَ(۷۳))

ترجَمۂ کنزُالایمان:اور کیا انہوں نے نہ دیکھا کہ ہم نے اپنے ہاتھ کے بنائے ہوئے چوپائے ان کے لیے پیدا کیے تو یہ ان کے مالک ہیں اور انہیں ان کے لیے نرم کردیا  تو کسی پر سوار ہوتے اور کسی کو کھاتے ہیں اور ان کے لیے ان میں کئی طرح کے نفعے  اور پینے کی چیزیں ہیں  تو کیا شکر نہ کریں گے ۔([x])

(اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

زمین و آسمان کی نعمتوں کی تخلیق میں غوروفکر پر ابھارنا

(اَلَمْ تَرَوْا اَنَّ اللّٰهَ سَخَّرَ لَكُمْ مَّا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الْاَرْضِ وَ اَسْبَغَ عَلَیْكُمْ نِعَمَهٗ ظَاهِرَةً وَّ بَاطِنَةًؕ-وَ مِنَ النَّاسِ مَنْ یُّجَادِلُ فِی اللّٰهِ بِغَیْرِ عِلْمٍ وَّ لَا هُدًى وَّ لَا كِتٰبٍ مُّنِیْرٍ(۲۰))

ترجَمۂ کنزُالایمان:کیا تم نے نہ دیکھا کہ اللہ نے تمہارے لیے کام میں لگائے جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہیں  اور تمہیں بھرپور دیں اپنی نعمتیں ظاہر اور چھپی  اور بعضے آدمی اللہ کے بارے میں جھگڑتے ہیں یوں کہ نہ علم نہ عقل نہ کوئی روشن کتاب ۔([xi])

(اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

قارئین کرام!  ان  آیاتِ مبارکہ  کا خلاصہ یہی ہے کہ کیا ان کافروں نے دیکھا کہ الله تعالیٰ پیدا کرنے کی ابتدا کیسے کرتا ہےاور درجہ بدرجہ تخلیق کو مکمل کرتا ہے، پھر آخرت میں دوبارہ زندہ کرے گا۔ الله تعالیٰ مخلوق کو پہلے کیسے بناتا،پھر موت دیتا ہے تاکہ تم غوروفکر کر کے الله تعالیٰ کی قدرت و شانِ تخلیق کے عجائبات سے اس کے خالق و مالک ہونے کی معرفت حاصل کر سکو۔

اور دیکھو کہ اللہ تعالیٰ نے  چیزوں کے سائے پیدا فرمائے اور سائے کا کیسا انداز ہے کہ سورج طلوع ہوتے وقت اُس کا سایہ ایک طرف ہوتا ہے تو غروب ہوتے وقت دوسری طرف۔  یہ بھی ایک سمجھنے کی بات ہے کہ سایہ دائیں اور بائیں جھکنے میں اللہ تعالیٰ کے حکم کا پابند ہے، جب کفار سایہ دار چیزوں کا یہ حال اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں تو انہیں چاہئے کہ وہ اس میں غورو فکر کر کے اللہ کریم کی شانِ تخلیق کا اعتراف کریں ۔

اور پرندوں کے وجود اور پرواز پر غور کریں کہ کیسے ہلکے اور بھاری ہر طرح کے جسم کے ساتھ   فضا میں اڑتے ہیں،  بھلا وہ کون ہے جو انہیں گرنے نہیں دیتا، حالانکہ فضا میں تو ایک تنکا بھی نہیں رکتا ، یقیناً کوئی عظیم ذات ہے جو اس سب پر قادر ہے اور وہ اللہ کی ذات ہے۔ ایماندار اس میں غور کرکے قدرتِ الٰہی  کا اعتراف کرتے ہیں۔

اسی طرح کفارِ مکہ کو زمین کے عجائبات اور اس سے اگنے والی طرح طرح  کی نباتات کے   جوڑوں پر غور کرنا چاہیے کہ ان نباتات سے  انسان و جانور دونوں نفع اٹھاتے ہیں۔

یہ خالقِ کائنات ہی کی شان ہے کہ خشک زمین جس میں  سبزہ کا نام و نشان نہیں ہوتا ،پانی بھیجتا ہے اور اسے زندہ فرماتا ہے،  پھر اس سے کھیتی نکالتاہے، چاہیے تو یہ تھا کہ یہ لوگ ان نشانیوں سے الله تعالیٰ کی قدرت کے کمال پر اِستدلال کریں  اور سمجھیں  کہ جو قادرِ برحق خشک زمین سے کھیتی نکالنے پر قادر ہے تو مُردوں  کوزندہ کردینا بھلا کیسے  اس کی قدرت سے بعید ہوسکتا ہے۔

کفار مکہ کی عقل و دانش کو یوں بھی للکارا گیا کہ دیکھو  یہ جو تم مرنے کے بعد دوبارہ اٹھائے جانے  کے منکر ہو، ذرا غور تو کرو کہ  جو ذات دن کو رات اور رات  کو دن میں بدلنے پر قادر ہے، بھلا  وہ مُردے کو زندہ کرنے پر  کیونکر قادر نہ ہوگا، یقیناً وہ قادر ہے۔

الغرض! قراٰنِ کریم نے طرح طرح سے دعوتِ فکر دی ہے، ذرا سا شعور و عقل  سے کام لیا جائے تو کائنات میں ہر طرف ہزار ہا ایسے مناظر   ہیں جو  بندے کو سوچنے پر مجبور کردیتے ہیں کہ یہ نظام کیسے چل ر ہا ہے؟ بھلا یہ کیسے ممکن ہے کہ   بارش ہو اور مردہ زمین صرف اتفاقی طور پر زندہ ہوجائے؟ ہلکے سے ہلکا کاغذ بھی فضا میں رک نہ سکے تو  بھاری بھرکم شاہین، گدھ  وغیرہ کیسے  رک رہے ہیں؟ سورج، چاند اور ہزاروں لاکھوں سیارے، ستارے کس اتفاق کے تحت چل رہے ہیں؟ جی ہاں!  وہ ذات صرف اللہ رب العزّت کی ذات ہے ، یہی قراٰنِ کریم کی دعوتِ تفکر ہے۔

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

*(فارغ التحصیل جامعۃ المدینہ،ایڈیٹر ماہنامہ فیضان مدینہ کراچی)



([i])پ14،النحل: 79

([ii])پ29، الملک:19

([iii])پ19، الشعراء:7، 8

([iv])پ20،العنکبوت:19، 20

([v])پ14، النحل: 48

([vi])پ،20، النمل:86

([vii])پ،21، الروم:37

([viii])پ،21، السجدۃ:27

([ix])پ،22، سبا:9

([x])پ،23، یٰسین:71 تا73

([xi])پ،21، لقمان:20


Share