پاکیزہ غذا

شرح حدیث رسول

پاکیزہ غذا

*مولانا ابو رجب محمد آصف عطّاری مدنی

ماہنامہ ستمبر 2024

 اُمُّ المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہُ عنہا سے روایت ہے کہ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نےارشاد فرمایا: اِنَّ اَطْيَبَ مَا اَكَلْتُمْ مِنْ كَسْبِكُمْ وَاِنَّ اَوْلَادَكُمْ مِنْ كَسْبِكُمْ یعنی سب سے پاکیزہ غذا وہ ہے جو تمہاری اپنی کمائی سے ہو اور تمہاری اولاد بھی تمہاری اپنی کمائی سے ہے۔ ([i])

شرحِ حدیث:

اس حدیث شریف میں دو باتوں کا بیان ہے: اپنی کمائی کا کھانا طیب و پاکیزہ ہونا اور اولاد کی کمائی سے کھانا۔

شارحِ حدیث علامہ ملّا علی قاری رحمۃُ اللہِ علیہ لکھتے ہیں: یعنی حلال ترین کمائی وہ ہے جو بندہ اپنی محنت سے حاصل کرے جیسے کاریگری یا تجارت یا زراعت وغیرہ کے ذریعے سے۔([ii])

اس میں یہ تو واضح ہے کہ اپنی محنت کا ذریعہ جو بھی ہو اس کا شریعت کے احکام کے مطابق ہونا اور حرام اور دھوکے سے پاک ہونا لازمی ہے تبھی وہ کمائی حلال و پاکیزہ ہوگی۔

حلال کمائی کے لئے سعی کرنے پر تحسین:

حلال کمائی کے لئے بھاگ دوڑ کرنے والے کو رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اللہ کی راہ میں کوشش کرنے والا فرمایا ہے چنانچہ ایک شخص نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے قریب سے گزرا تو صحابَۂ کرام علیہمُ الرّضوان نے اس کے پھرتیلے بدن کی مضبوطی اور چستی کو دیکھا تو عرض کی،یا رَسولَ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم! کاش اس کا یہ حال اللہ کریم کی راہ میں ہوتا۔ تو آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا:اگر یہ شخص اپنے چھوٹے بچوں کے لئے رزق کی تلاش میں نکلا ہے تو یہ اللہ پاک کی راہ میں ہے اور اگر یہ شخص اپنے بوڑھے والدین کے لئے رزق کی تلاش میں نکلا ہے تو بھی یہ اللہ کی راہ میں ہے اور اگر یہ اپنی پاکدامنی کے لئے رزق کی تلاش میں نکلا ہے تو بھی یہ اللہ کی راہ میں ہے اور اگر یہ دِکھاوے اور تَفاخُر کے لئے نکلا ہے تو یہ شیطان کی راہ میں ہے۔ ([iii])

 حضرت الحاج مُفتی احمد یار خان رحمۃُ اللہِ علیہ شروع میں ذکر کی گئی حدیث شریف کے تحت لکھتے ہیں: یعنی اپنے کو بے کار نہ رکھو بلکہ روزی کماؤ اور کما کر کھاؤ۔([iv])

ہمیں رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی مبارک سیرت سے بھی یہی درس ملتاہے اور رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اس کی عملی تربیت دی ہے چنانچہ مشہور روایت ہے کہ ایک انصاری نے حضور پُر نور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی خدمتِ اَقدس میں حاضر ہوکر سوال کیا تو آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: کیا تمہارے گھر میں کچھ نہیں ہے؟ اس نے عرض کی:جی ہے اور وہ ایک ٹاٹ ہے جس کا ایک حصہ ہم اوڑھتے ہیں اور ایک حصہ بچھاتے ہیں اور ایک لکڑی کا پیالہ ہے جس میں ہم پانی پیتے ہیں۔ ارشاد فرمایا: دونوں چیزوں کو میرے حضورحاضر کرو۔ انہوں نے حاضر کر دیں تو حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے انہیں اپنے دستِ مبارک میں لے کر ارشاد فرمایا:انہیں کون خریدتا ہے؟ ایک صاحب نے عرض کی: ایک درہم کے عوض میں خریدتا ہوں۔ ارشاد فرمایا: ایک درہم سے زیادہ کون دیتا ہے؟ یہ بات دو یا تین بار فرما ئی تو کسی اور صاحب نے عرض کی: میں دو درہم کے بدلے لیتا ہوں۔ انہیں یہ دونوں چیزیں دے دیں اور درہم لے لئے اور انصاری کو دونوں درہم دے کر ارشاد فرمایا: ایک کا غلہ خرید کر گھر ڈال آؤ اور ایک کی کلہاڑی خرید کر میرے پاس لاؤ۔ وہ لے کرحاضر ہوئے تو حضورِ انور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اپنے دستِ مبارک سے اُس میں دستہ ڈالا اور فرمایا: جاؤ لکڑیاں کاٹو اور بیچو اور پندرہ دن تک میں تمہیں نہ دیکھوں (یعنی اتنے دنوں تک یہاں حاضر نہ ہونا)۔ وہ گئے اور لکڑیاں کاٹ کر بیچتے رہے، پندرہ دن بعد حاضر ہوئے تو اُن کے پاس دس درہم تھے، چند درہم کا کپڑا خریدا اور چند کا غلہ۔ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: ”یہ اس سے بہتر ہے کہ قیامت کے دن سوال تمہارے منہ پر چھالا بن کر آتا۔“ ([v])

حلال و پاکیزہ کمائی کے مزید فوائد:

یہاں حلال و پاکیزہ کمائی کی اہمیت کو مزید اجاگر کرنے کے لئےتین فرامینِ مصطفےٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم پڑھئے چنانچہ

(1)جس شخص نےحلال مال کمایاپھر اسے خودکھایا یا اس کمائی سے لباس پہنا اور اپنے علاوہ اللہ تعالیٰ کی دیگر مخلو ق (جیسے اپنے اہل و عیال اور دیگر لوگوں ) کو کھلا یا اور پہنا یا تو اس کا یہ عمل اس کے لئے برکت و پاکیزگی ہے۔([vi])

(2)حضرت سیِّدُنا سعد رضی اللہُ عنہ نے نبیِّ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہ میں عرض کی: آپ دُعا فرمائیے کہ اللہ پاک میری دُعا قبول فرمایا کرے۔توقاسمِ نعمت،نبیِّ رحمت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:یَاسَعْد!اَطِبْ مَطْعَمَکَ تَکُنْ مُسْتَجَابَ الدَّعْوَۃِ یعنی اے سعد! اپنے کھانےکوپاکیزہ بناؤ تمہاری دُعائیں قبول ہوا کریں گی۔([vii])

(3)جس نے 40دن تک حلال کھایا، اللہ کریم اس کے دل کو منور فرمادے گا اور اس کی زبان پر حکمت کے چشمے جاری فرمادے گا اور دنیا و آخرت میں اس کی رہنمائی فرمائے گا۔([viii])

حدیث پاک کا دوسرا حصہ:

وَاِنَّ اَوْلَادَكُمْ مِنْ كَسْبِكُمْ اور تمہاری اولاد بھی تمہاری اپنی کمائی سے ہے۔“ کے تحت شارحِ حدیث مُفتِی احمد یار خان رحمۃُ اللہِ علیہ لکھتے ہیں: اور اولاد کی کمائی بھی تمہاری اپنی کمائی ہی ہے کہ بالواسطہ وہ گویا تم ہی نے کمایا ہے۔([ix])

ایک حدیث پاک میں ہے کہ ایک شخص نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی خدمت میں آیا بولا کہ میرے پاس مال ہے اور میرے والد میرے مال کے محتاج ہیں، فرمایا: تم اور تمہارا مال تمہارے باپ کا ہے، یقیناً تمہاری اولاد تمہاری پاکیزہ کمائی سے ہے، اپنی اولاد کی کمائی کھاؤ۔([x])

مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃُ اللہِ علیہ لکھتے ہیں: اس فرمان عالی سے چند مسئلے معلوم ہوئے:غنی اولاد پر فقیر ماں باپ کا خرچہ واجب ہے اور اگر ماں باپ غنی ہوں انہیں اولاد کے مال کی ضرورت نہ ہو تو ہدایا دیتے رہنا مستحب ہے۔ (مفتی صاحب مزید لکھتے ہیں:)خیال رہے کہ بچہ کو ماں خون پلا کر پالتی ہے باپ مال کھلاکر یعنی جانی خدمت ماں کرتی ہے اور مالی خدمت باپ،اسی وجہ سے ارشاد ہوا کہ جنت تمہاری ماؤں کے قدموں کے نیچے ہے اور یہاں ارشاد ہوا کہ تم اور تمہارا مال تمہارے باپ کا ہے، جیسی پرورش ویسا اس کا شکریہ۔ یہ ہے اس سرکار سید الانبیاء صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا انصاف۔([xi])

ایک اور روایت میں ہے کہ ’’ایک شخص بارگاہِ اقدس میں حاضر ہوکر عرض گزار ہوا: ’’یارسول اللہ!میرے باپ نے میرا مال لے لیا ہے۔“تو حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: ’’جاؤ اور اپنے باپ کو لے کر آؤ۔‘‘ اتنے میں حضرت سیِّدُنا جبرئیل امین علیہ السّلام نے آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہ میں حاضر ہو کر عرض کی: اللہ کریم نے آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو سلام بھیجا ہے اور ارشاد فرمایا ہے کہ’’ جب وہ بوڑھا شخص آئے تو اس بات کے متعلق اس سے دریافت فرمائیں جو اس نے اپنے دل میں کہی اور جسے اس کے کانوں نے بھی نہ سنا۔‘‘

جب بوڑھا شخص حاضر ہوا توحضور نبیِّ پاک، صاحبِ لَولاک، سیّاحِ افلاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے استفسار فرمایا: ”تمہارے بیٹے کا کیا معاملہ ہے؟ وہ شکایت کر رہا ہے کہ تم اس کا مال لینا چاہتے ہو ؟‘‘اس نے عرض کی: ’’یارسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم! اس سے پوچھئے کہ کیا میں نے وہ مال اس کی پھوپھیوں، خالاؤں اور اپنے آپ پر خرچ نہیں کیا؟“ تو آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: ’’ٹھیک ہے (لیکن)مجھے وہ بتاؤ جو تم نے اپنے دل میں کہا اور تمہارے کانوں نے بھی نہ سنا۔“بوڑھے نے عرض کی:’’یارسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم! اللہ پاک یقیناً ہمیں آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی برکت کا وافر حصہ عطا فرمائے گا، میں نے اپنے دل میں ایک ایسی بات کہی جو میرے کانوں نے بھی نہ سنی۔“ ارشاد فرمایا: ”اب تم بولو اور میں سنتا ہوں۔“ عرض کی:’’میں نے(اشعار میں )یہ کہاتھا:

غَذَوْتُکَ مَوْلُوْدًا وَمُنْتُکَ یَافِعًا

تُعِلَّ بِمَا اَجْنِیْ عَلَیْکَ وَتَنْھَلُ

اِذَا لَیْلَۃٌ ضَاقَتْکَ بِالسَّقَمِ لَمْ اَبِتُّ

لِسَقَمِکَ اِلَّا سَاھِرًا اَتَمَلْمَلُ

کَاَنِّی اَنَا الْمَطْرُوْقُ دُوْنَکَ بِالَّذِیْ

طُرِقْتَ بِہٖ دُوْنِیْ فَعَیْنَیَّ تَھْمِلُ

تَخَافُ الرَّدٰی نَفْسِیْ عَلَیْکَ وَاِنَّھَا

لَتَعْلَمُ اَنَّ الْمَوْتَ وَقْتٌ مُؤَجَّلُ

فَلَمَّا بَلَغْتَ السِّنَّ وَالْغَایَۃَ الَّتِیْ

اِلَیْھَا مَدٰی مَا فِیْکَ کُنْتُ اُؤَمِّلُ

جَعَلْتَ جَزَآئِیْ غِلْظَۃً وَفَظَاظَۃً

کَاَنَّکَ اَنْتَ الْمُنْعِمُ الْمُتَفَضِّلُ

فَلَیْتَکَ اِذْ لَمْ تَرْعَ حَقَّ اُ بُوَّتِیْ

فَعَلْتَ کَمَا الْجَارُ الْمُجَاوِرَ یَفْعَلُ

تَرَاہٗ مُعِدًّا لِلْخِلَافِ کَاَنَّہٗ

بِرَدٍّ عَلٰی اَھْلِ الصَّوَابِ مُؤَکَّلُ

ترجمہ:

(1)میں نے بچپن میں تیری پرورش کی اور جوانی تک تجھ پر احسان کیا، جو تیری خاطر کماتا تُواسی کے کھانے پینے میں لگاتار مشغول رہا۔

(2)جب رات نے بیماری میں تجھے کمزور کردیا تو میں تیری بیماری کی وجہ سے رات بھر بے قراری کی حالت میں بیدار رہا۔

(3)گویا تیری جگہ میں اس مرض کا شکار تھا جس نے تجھے اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا جس کے سبب میری آنکھیں تھمنے کانام نہ لیتی تھیں۔

(4)میرا دل تیری ہلاکت سے ڈر رہا تھا حالانکہ اسے معلوم تھا کہ موت کا ایک وقت مقرر ہے۔

(5)جب تو بھر پورجوانی کی عمر کو پہنچا جس کی میں عرصَۂ دراز سے تمنا کر رہا تھا۔

(6)تو تُو نے میرے احسان کا بدلہ انتہائی سختی کی صورت میں دیا گویا پھر بھی تو ہی احسان اور مہربانی کرنے والا ہے۔

(7)اور تو نے میرے باپ ہونے کا لحاظ تک نہ کیا بلکہ ایسا سلوک کیا جیسے پڑوسی پڑوسی کے ساتھ کرتا ہے۔

(8)آپ اسے (یعنی میرے بیٹے کو) ہر وقت میری مخالفت پرتیار پائیں گے گویا اسے اہلِ حق کا انکار کرنے پر ہی مقررکیا گیا ہو۔

حضرت سیِّدُنا جابر رضی اللہُ عنہ فرماتے ہیں :پس اسی وقت سرکارِ مدینہ،قرارِ قلب وسینہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اس کے بیٹے کو جلال سے فرمایا:’’تو اور تیرا مال تیرے باپ کا ہے۔“ ([xii])

کتنا کمانا ضروری ہے:

یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ کس قدر کمانا لازم اور کتنا مستحب ہے چنانچہ بہارشریعت ہے : اتنا کمانا فرض ہے جو اپنے لئے اور اہل و عیال کے لئے اور جن کا نفقہ اس کے ذمہ واجِب ہے ان کے نفقہ کے لئے اورادائے دَین (یعنی قرض وغیرہ ادا کرنے) کے لئے کفایت کرسکے اس کے بعد اسے اِختیار ہے کہ اتنے ہی پر بس کرے یا اپنے اوراہل و عیال کے لئے کچھ پس ماندہ رکھنے کی بھی سعی و کوشش کرے۔ ماں باپ محتاج و تنگدست ہوں تو فرض ہے کہ کما کر انہیں بقدرِ کفایت دے۔ قدرِ کفایت سے زائد اس لئے کماتا ہے کہ فقراء و مساکین کی خبر گیری کرسکے گا یا اپنے قریبی رشتہ داروں کی مدد کرے گا یہ مستحب ہے اور یہ نفل عبادت سے افضل ہے اور اگر اس لئے کماتا ہے کہ مال ودولت زیادہ ہونے سے میری عزت ووقار میں اضافہ ہو گا، فخر وتکبر مقصود نہ ہو تو یہ مباح ہے اور اگر محض مال کی کثرت یا تفاخر مقصودہے تو منع ہے۔([xiii])

درسِ حدیث:

اے عاشقانِ رسول! حدیث پاک اور اس کی شرح سے واضح ہوتا ہے کہ

٭ رزق حلال کمانے کی کوشش کرنی چاہئے۔

٭ اس قدر کمانا ضروری ہے کہ اہل و عیال اور والدین کی کماحقہ ضرورتیں پوری کرسکیں اور کسی کے آگے سوال نہ کرنا پڑے۔

٭بے کار رہنا عزتِ نفس کے بھی خلاف ہے اور ملکی معیشت کے بھی۔

٭رزق حلال کمانے کے لئے محنت کرنے سے بےروزگاری میں کمی آئے گی اور معیشت کا فائدہ ہوگا۔

٭معاشرے کے وہ ویلے اور فارغ لوگ جو دوسروں پر بوجھ بنے رہتے ہیں اور سمجھتے ہیں انہیں تو بس بیٹھے بٹھائے کوئی بڑی نوکری ملے، یہ مزاجِ شریعت نہیں۔ اپنی طرف سے ہر جائز اور ممکن کوشش کرنی چاہئے جیسا کہ رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے بھی انصاری نوجوان کو سوال سے روکا اور رزقِ حلال کی سعی کے لئے مختصر اسباب کو بروئے کار لانے کی عملی تربیت دی۔

خلاصہ:

مال و دولت ایسی چیز ہے جس سے دنیا کا کوئی بھی شخص بےنیاز نہیں ہوسکتا چاہے وہ مرد ہویا عورت، بچہ ہویا بوڑھا، عالم ہویا جاہل! کیونکہ زندہ رہنے کے لئے روٹی، تَن ڈھانپنے کے لئے کپڑے،سرچُھپانے کے لئے مکان،سفر کے لئے سواری اور بیماری کے علاج کے لئے دوائی وغیرہ ہر انسان کی بنیادی ضروریات ہیں اور یہ چیزیں مال کے ذریعے ہی حاصل ہو سکتی ہیں۔ اگرانسان کو بالکل ہی مال نہ ملے تو محتاجی ہوتی ہے اور اگر زیادہ مل جائے تو سَرکشی کا خطرہ رہتا ہے۔ الغرض مال میں جہاں بے شمار فائدے ہیں وہیں اس کی آفات بھی بے حساب ہیں۔

اللہ کریم ہمیں رزق حلال کے لئے کوشش کرنے اور ہر ناجائز ذریعہ سے بچتے رہنے کی توفیق عطا فرمائے۔

اٰمِیْن بِجَاہِ خَاتَمِ النَّبِیّٖن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

*(استاذ المدرّسین، مرکزی جامعۃُ المدینہ فیضان مدینہ کراچی)



([i])ابن ماجہ، 3/80، حدیث: 2290

([ii])مرقاۃ المفاتیح،6/21،تحت الحدیث:2770

([iii])التر غیب والترہیب،3/31،حدیث:3041

([iv])مراٰۃ المناجیح،4/233

([v])ابو داؤد، 2/168، حدیث: 1641

([vi])ابن حبان،جزء6، 4/218،حدیث:4222

([vii])معجم اوسط،5/34،حدیث:6495

([viii])اتحاف السادۃ،6/450

([ix])مراٰۃ المناجیح،4/233

([x])ابوداؤد، 3/403، حدیث:3530-ابن ماجہ، 3/81، حدیث: 2292

([xi])مراٰۃ المناجیح، 5/165

([xii])معجم صغیرللطبرانی،ص62،حدیث:944

([xiii])بہارِ شریعت،3/609


Share