میزبان کے حقوق

نئے لکھاری

میزبان کے حقوق

*احمد افتخار عطّاری

ماہنامہ ستمبر 2024

پیارے اسلامی بھائیو! جس طرح مہمان کی عزت و توقیر اور اپنی حیثیت کے مطابق مہمان نوازی کرنا میزبان کی ذمہ داری ہے اسی طرح ہمارا دینِ اسلام ہمیں یہ بھی سکھاتا ہے کہ ایک مہمان کو میزبان کے ساتھ کیسے پیش آنا چاہئے۔ آیئے! میزبان کے 5حقوق پڑھ کر اپنے علم و عمل میں اضافہ کرتے ہیں:

(1)زیادہ دیر نہ ٹھہرنا:

فرمانِ آخری نبی محمدِ عربی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم: مہمان کیلئے یہ حلال نہیں کہ میزبان کے یہاں ٹھہرا رہے کہ اسے حرج میں ڈال دے۔(بخاری، 4/136، حدیث: 6135)

(2)میزبان کو گناہ میں مبتلا نہ کرنا:

 حدیثِ مبارک میں مہمان کو حکم دیا گیا ہے کہ کسی مسلمان شخص کے لئے حلال نہیں کہ وہ اپنے (مسلمان) بھائی کے پاس اتنا عرصہ ٹھہرے کہ اسے گناہ میں مبتلا کر دے، صحابَۂ کرام علیہمُ الرّضوان نے عرض کی: یارسولَ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم! وہ اسے گناہ میں کیسے مبتلا کرے گا؟ ارشاد فرمایا: وہ اپنے بھائی کے پاس ٹھہرا ہو گا اور حال یہ ہو گا کہ اس کے پاس کوئی ایسی چیز نہ ہوگی جس سے وہ اس کی مہمان نوازی کر سکے۔(مسلم، ص736، حدیث: 5414)

(3)مہمان نوازی سے خوش ہونا:

(لَا یُحِبُّ اللّٰهُ الْجَهْرَ بِالسُّوْٓءِ مِنَ الْقَوْلِ اِلَّا مَنْ ظُلِمَؕ وَكَانَ اللّٰهُ سَمِیْعًا عَلِیْمًا(۱۴۸))

ترجَمۂ کنزالایمان: اللہ پسند نہیں کرتا بری بات کا اعلان کرنا مگر مظلوم سے اور اللہ سنتا جانتا ہے۔(پ6، النسآء: 148)

 اس آیتِ مبارکہ کا شانِ نزول یہ ہے کہ ایک شخص ایک قوم کا مہمان ہوا تھا اور انہوں نے اچھی طرح اس کی میزبانی نہ کی، جب وہ وہاں سے نکلا تو اُن کی شکایت کرتا ہوانکلا۔ (بیضاوی، النسآء، تحت الآیۃ:148، 2/272)

 اس سے ان لوگوں کو عبرت حاصل کرنی چاہئے جو میزبان کی مہمان نوازی سے خوش نہیں ہوتے اگرچہ میزبان نے کتنی ہی تنگی ہونے کے باوجود کھانے کا اہتمام کیا ہو۔ خصوصاً رشتے داروں میں اور بِالخُصوص سسرالی رشتے داروں میں مہمان نوازی پر شکوہ شکایت عام ہے۔

(4)دعوت کے بغیر کھانا نہ کھانا:

(یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَاتَدْخُلُوْا بُیُوْتَ النَّبِیِّ اِلَّاۤ اَنْ یُّؤْذَنَ لَكُمْ اِلٰى طَعَامٍ غَیْرَ نٰظِرِیْنَ اِنٰىهُۙ-وَ لٰكِنْ اِذَا دُعِیْتُمْ فَادْخُلُوْا فَاِذَا طَعِمْتُمْ فَانْتَشِرُوْا وَ لَا مُسْتَاْنِسِیْنَ لِحَدِیْثٍؕ   )

ترجَمۂ کنزالایمان: اے ایمان والو نبی کے گھروں میں نہ حاضر ہو جب تک اذن نہ پاؤ مثلاً کھانے کے لیے بلائے جاؤ نہ یوں کہ خود اس کے پکنے کی راہ تکو ہاں جب بلائے جاؤ تو حاضر ہو اور جب کھا چکو تو متفرق ہوجاؤ نہ یہ کہ بیٹھے باتوں میں دل بہلاؤ۔ (پ22، الاحزاب: 53)

مفتی قاسم صاحب دامت بَرَکَاتُہمُ العالیہ اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں: کوئی شخص دعوت کے بغیر کسی کے یہاں کھانا کھانے نہ جائے۔ اور مہمان کو چاہئے کہ وہ میزبان کے ہاں زیادہ دیر تک نہ ٹھہرے تاکہ اس کے لئے حَرج اور تکلیف کا سبب نہ ہو۔(صراط الجنان، 8/73)

(5)مہمان کو چار باتیں ضروری ہیں:

 حضرت علّامہ مولانا مفتی محمد امجد علی اعظمی رحمۃُ اللہِ علیہ بہار شریعت میں تحریر فرماتے ہیں کہ مہمان کو چار باتیں ضَروری ہیں: (1)جہاں بٹھایا جائے وہیں بیٹھے (2)جو کچھ اس کے سامنے پیش کیا جائے اس پر خوش ہو، یہ نہ ہو کہ کہنے لگے: اس سے اچھا تو میں اپنے ہی گھر کھایا کرتا ہوں یا اسی قسم کے دوسرے الفاظ (3)بِغیر اجازتِ صاحِبِ خانہ (یعنی میزبان سے اجازت لئے بِغیر) وہاں سے نہ اُٹھے اور (4)جب وہاں سے جائے تو اس کے لیے دُعا کرے۔(بہار شریعت، 3/394)

اللہ پاک ہمیں دیگر حقوق کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ میزبان کے حقوق بھی ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

*(درجۂ سادسہ جامعۃُ المدینہ فیضانِ فاروقِ اعظم سادھوکی لاہور)


Share