مقدس مقام کی مٹی فروخت کرنا کیسا؟

احکامِ تجارت

*مفتی ابومحمد علی اصغر عطّاری مدنی

ماہنامہ فیضانِ مدینہ جون 2025ء

(1)بیٹے کا اپنے والد سے دکان پر کام کرنے کی سیلری لینا کیسا؟

سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ میں اپنے والدین کی خدمت کرتا ہوں اور والد صاحب کی ہی دکان پر کام کرتا ہوں اور اس پر سیلری نہیں لیتاجو وہ خرچی دیتے ہیں وہ میں لے لیتا ہوں لیکن اس سے میرے اپنے اخراجات پورے نہیں ہو رہے جس کی وجہ سے مجھے پریشانی کا سامنا ہے میرا سوال یہ ہے کہ والد صاحب سے دکان پر کام کرنے کی سیلری لے سکتا ہوں یا نہیں؟

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

جواب: اجارے کی شرائط کا لحاظ رکھتے ہوئے آپ اپنے والد سے دکان پر کام کرنے کی سیلری لے سکتے ہیں۔

تفصیل اس مسئلے کی یہ ہے کہ والدین کےکاموں میں بعض کام وہ ہیں جن کا تعلق والدین کی خدمت سے ہے اور بعض وہ کام ہیں جن کا تعلق والدین کی خدمت سے نہیں بلکہ دیگر امور سے ہے۔

والدین کی خدمت سے تعلق رکھنے والے کام کرنے پر اولاد کے لئےوالدین سے اجرت لینا جائز نہیں ہے اور نہ ہی ان خدمات کے سر انجام دینے سے اولاد اُجرت کی مستحق ہوگی کیونکہ یہ کام بغیر اجرت کرنا ہی اولاد پر واجب ہے۔ البتہ وہ کام جن کا تعلق والدین کی خدمت سے نہیں بلکہ دیگر امور سے ہے ان کے کرنے پر اولاد والدین سے اجرت لے سکتی ہےاور دکان پر کام کرنا بھی ان ہی امور میں سےہے جن کاتعلق خدمت سے نہیں لہٰذا بیٹا اپنے والد سےان کی دکان پر کام کرنے کی سیلری لے سکتا ہے۔

محیط برہانی میں ہے:

ولو استأجر الرجل ابنه للخدمة أو استأجرت المرأة ابنها للخدمة لم يجز، وإذا خدم فلا أجر له؛ لأن خدمة الأب واجبة على الابن فالإجارة وردت على ما هو المستحق فلا تعمل۔۔۔ وإن كان الابن حراً فاستأجره أحدهما ليرعى غنماً له أو استأجره لعمل آخر وراء الخدمة، فإنه يجوز

یعنی:والد  یا والدہ نے اپنے بیٹے کو خدمت کے لیے اجارہ پر رکھا تو یہ جائز نہیں ہےاور اگربیٹے نے خدمت کی تو یہ اجرت کا مستحق نہیں ہوگاکیونکہ والد کی خدمت بیٹے پر واجب ہے تو اجارہ اس کام پر  واقع ہوا جو اس پر پہلےہی  لازم ہے لہٰذا یہاں اجارہ کرنا کارآمد نہیں ۔۔۔ اگر بیٹا آزاد ہو اور والدین میں سے کسی نے اس لیے اجارہ پر رکھا کہ وہ ان کی بکریاں چرائے یا خدمت کے علاوہ کسی اور کام کے لیے اجارہ پر رکھا تو یہ جائز ہے۔

(محیط برہانی ،جلد7،صفحہ 453، دار الکتب العلمیہ، بیروت)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

(2)مقدس مقام کی مٹی فروخت کرنا کیسا؟

سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ زید ایک مقدس مقام سے مٹی لایا ہے اور تین تین مٹھی مٹی پانچ پانچ ہزار کی فروخت کر رہا ہے، اس بیع کا کیاحکم ہے؟

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

جواب: پوچھی گئی صورت میں اس شخص کا مقدس مقام سے لائی ہوئی مٹی کو اپنے قبضے میں لے کر اس کی بیع کرنا شرعاً جائز ہے۔

اس مسئلہ کی تفصیل یہ ہے کہ وہ قلیل مباح مٹی جو اپنی جگہ پڑی ہوئی ہو وہ شرعاً مال نہیں لہذا اس کی بیع جائز نہیں، البتہ اگر کوئی شخص اس قلیل مٹی کو اس کی جگہ سے منتقل کر کے اپنے قبضے میں لے لے اور عرفاً اس مٹی کی طرف لوگوں کی رغبتیں مائل ہوں، اس کا لین دین کرتے ہوں، اس کو سنبھال کر رکھتے ہوں تو ایسی مٹی شرعاً مال ہےاور اس کی بیع بھی جائز ہے۔ مقدس مقام سے لائی ہوئی مٹی کو اپنے قبضے میں لے کر اس کی بیع کرنا شرعاً جائز ہے۔ جیسا کہ مباح پانی جو اپنی جگہ پر ہو اس کی بیع جائز نہیں لیکن جب اسےبرتن وغیرہ میں بھر کر اپنے قبضے میں لے لیا جائے تو اس کی بیع جائز ہے۔

حدیث پاک میں ہے:’’فدعا صلی اللہ علیہ وسلم لہ بالبرکۃ فی بیعہ، وکان لو اشتری التراب لربح فیہ‘‘ رسولُ ا  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے حضرت عروہ  رضی اللہُ عنہ  کے لئے تجارت میں برکت کی دعا فرمائی پھر اگر وہ مٹی بھی خرید لیتے تو اس میں بھی نفع کمالیتے تھے۔

(بخاری،ص 592)

اس حدیثِ پاک کے تحت مراٰۃ المناجیح میں ہے: ”یامٹی ہی مراد ہے کہ مٹی کی تجارت جائز ہے۔ خصوصاً مدینہ پاک کی مٹی کی تجارت تو اب بھی بڑے زور سے ہوتی ہے، وہاں کی خاک شفاء حجاج تحفہ کے طور پر لاتے ہیں کمہار جنگلی مٹی مفت اٹھا لاتے ہیں اور شہر میں فروخت کرتے ہیں یہ بھی جائز ہے۔“

(مراٰۃ المناجیح،4/309)

بہارِ شریعت میں ہے:’’مال وہ چیز ہے جس کی طرف طبیعت کا میلان ہو جس کو دیا لیا جاتا ہو جس سے دوسروں کو روکتے ہوں جسے وقت ضرورت کے لیے جمع رکھتے ہوں لہٰذا تھوڑی سی مٹی جب تک وہ اپنی جگہ پر ہے مال نہیں اور اس کی بیع باطل ہے البتہ اگر اُسے دوسری جگہ منتقل کرکے لے جائیں تو اب مال ہے۔“

(بہارشریعت، 2/696)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

(3)قادیانی سے گھر کرایہ پر لینا کیسا؟

سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ قادیانی سے گھر کرائے پر لینا کیسا ہے؟

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

جواب: قادیانی مرزا غلام احمد کذاب کو نبی ماننے اور اس طرح کے کئی کفریہ عقائد کی وجہ سے کافر و مرتد ہیں اور مرتدین کے بارے میں شریعت کا حکم یہ ہے کہ ان کےساتھ میل جول رکھنا، اُٹھنا، بیٹھنا، کھانا، پینا، لین دین وغیرہ سب حرام اورسخت گناہ کے کام ہیں لہٰذا قادیانی سے گھر کرائے پر لینا، جائز نہیں۔

حدیثِ پاک میں ہے:”اياكم واياهم لايضلونكم ولايفتنونكم یعنی: ان سے بچو، انہیں دور رکھو کہ کہیں وہ تمہیں گمراہ نہ کردیں تمہیں فتنے میں نہ ڈال دیں۔“(مسلم، ص23)

مرتد سے اجارہ کرنے کے متعلق سیدی اعلیٰ حضرت،امامِ اہلِ سنّت، امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمٰن فرماتے ہیں:”نہ ان کی نوکری کرنے کی اجازت، نہ انہیں نوکر رکھنے کی اجازت کہ ان سے دور بھاگنے اور انہیں اپنے سے دور کرنے کا حکم ہے۔ رسولُ اللہ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  فرماتے ہیں: ”اياكم واياهم لايضلونكم ولايفتنونكم“ یعنی:ان سے بچو، انہیں دور رکھو کہ کہیں وہ تمہیں گمراہ نہ کردیں تمہیں فتنے میں نہ ڈال دیں۔

(فتاویٰ رضویہ، 14/412)

ایک اور مقام پر قادیانی سے معاملات کرنے سے متعلق سیدی اعلیٰ حضرت،امامِ اہلِ سنت، امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمٰن فرماتے ہیں: ”قادیانی مرتد ہیں، اُن کے ہاتھ نہ کچھ بیچا جائے نہ اُن سے خریدا جائے، اُن سے بات ہی کرنے کی اجازت نہیں۔“

(فتاویٰ رضویہ، 23/598)

وقارُ الفتاویٰ میں ہے: ”قادیانیوں کے دونوں گروپ (لاہوری اور احمدی) کافر و مرتد ہیں اور مرتد کے احکام اہلِ کتاب اور مشرکین سے جدا ہیں، شریعت کےمطابق مسلمان، مرتد سے معاملات بھی نہیں کرسکتا،اس سے مِلنا جُلنا کھانا پینا سب ناجائز ہے۔۔۔ لہٰذا ان سے تجارت رکھنا، اٹھنا، بیٹھنا کھانا پینا سب حرام ہے۔“

(وقار الفتاویٰ،1/274)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* محقق اہل سنت، دارالافتاء اہل سنت نورالعرفان، کھارادر کراچی


Share