
انداز میرے حضور کے
آخری نبی محمد عربی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا سفرکےدوران اور اختتام پر انداز
*مولانا محمد ناصرجمال عطاری مدنی
ماہنامہ فیضانِ مدینہ جون2025
حضور نبیِ رحمت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی مبارک ادائیں اور انداز جہاں شب و روز گزارنے میں ہمارے لیے بہترین عملی نمونہ ہیں وہیں سفر میں بھی آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے انداز بہترین راہنمائی کرتے ہیں، اللہ کے آخِری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے سَفَر کے دوران اور پھر واپسی کے بھی خوب صورت انداز اختیار فرمائے ہیں اور بہت سے مواقع پر تربیَت بھی فرمائی ہے، آئیے! اِن مبارک طریقوں کو جاننے کی کوشش کرتے ہیں:
دورانِ سفر چلنے کا انداز:
حضرت اُسامہ بن زید رضی اللہُ عنہما سے سُوال ہوا کہ اللہ کے نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم حجّۃُ الْوَداع میں (عَرَفات سے مزدلفہ کی جانب)کس رفتار سے واپس روانہ ہوئے تھے؟ حضرت اسامہ رضی اللہُ عنہ نے کہا:حُضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم درمیانی رفتار سے چلتے تھے اور جب راستہ کشادہ ہوتا تو تیز چلتے۔ ([1])
عرفہ سےمزدلفہ کی طرف واپسی میں جلدی وقت کی تنگی کی وجہ سے کی جاتی ہے کیونکہ سورج غروب ہونے کے بعد مزدلفہ جانا ہوتا ہے جو عرفات سے تقریباً تین میل دُور ہے اور وہاں جا کر حاجیوں کو مغرب اور عشا ساتھ پڑھنی ہوتی ہے اس لئے عرفہ سے واپسی میں تیز رفتار میں چلا جاتا ہے۔([2])
پھر مزدلفہ سے مِنیٰ جاتے وقت سکون و وقار کے ساتھ راستہ طے کیا جائے۔ البتہ وادیِ مُحَسَّر میں رفتار اور بھی تیز کردی جائے کیونکہ ترمذی میں صحیح سند کے ساتھ مروی ہے، حضرت جابر رضی اللہُ عنہ نے خبر دی کہ اللہ کے نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم وادیِ مُحَسَّر میں بہت تیز رفتار سے چلتے تھے۔ ([3]) یادرہے کہ وادیِ مُحَسَّر وہ جگہ ہے جہاں اَبْرَہَہ کی فوج کے ہاتھی رُک گئے تھے بہت کوشش کے باوُجود آگے نہ بڑھے یہیں کنکریوں سے اَبْرَہَہ کا پورا لشکر تباہ وبرباد ہوا تھا۔ چونکہ یہ جگہ عذاب کے نُزول کی تھی اس لئے وہاں سے تیزی سے گزر گئے۔([4]) معلوم ہوا کہ جس جگہ اللہ پاک کا عذاب نازل ہوا ہو وہاں سَیر و تفریح کے لئے نہیں جانا چاہئے اور اگر اتفاقاً جانا پڑجائے تو جلد از جلد وہاں سے نکلنے کی کوشش کرنی چاہئے۔
حضرت اُسامہ رضی اللہُ عنہ سےیہ سُوال اللہ کے حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی عَرَفہ سے واپسی کی رفتار کے بارے میں تھا۔ ([5])اِس سوال سے یہ نکتہ سمجھ آتا ہے کہ حُضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے تمام کاموں کی کیفیت کےمتعلّق ہمارے بُز ُرگانِ دین معلومات حاصل کرتے پھر اندازِمصطفےٰ اپنانےکی کوشش کیاکرتے۔ ([6])اللہ کرےکہ ہم میں بھی اندازِ مصطفےٰ کا علم حاصل کرنےکا شوق و جذبہ پیدا ہوجائے۔ اٰمین
دورانِ سفر حسنِ سُلوک اور وعظ و نصیحت کا انداز:
کائنات جو تفاوت سے پاک ہے اور اِس میں جس طرح کاتناسُب نظر آتا ہے یہ ہمارے پیارے رحمٰن و رحیم اللہ کی رحمت کا اثر ہے اور اِسی رَحمت پر نظام ِ عالم کا دار و مدار ہے۔([7]) اِسی رحمٰن ربّ نے اپنے آخِری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو رَحمت بناکر بھیجا ہے۔
رَحمتِ عالم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی رحمت کا اثر سفر کے دوران بھی نظر آتا ہے، اللہ کے آخِری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم جب سفر میں تشریف لےجاتے تو اپنی سواری پر پیچھے کسی نہ کسی صَحابی کو بٹھا لیتے یوں وہ صَحابی ”ردیفِ رسول“کہلاتےتھے۔([8]) کئی صحابَۂ کرام علیہم الرضوان کو یہ سعادت ملی۔([9])
اِس سلسلے میں چند احادیث ِمبارکہ ملاحظہ کرتے ہیں:
(1)رسولِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے غزوۂ خیبرسے واپسی پر اپنا پاؤں اس انداز سے رکھا کہ آپ کی زوجہ حضرت صفیہ رضی اللہُ عنہا اپنے قدموں کوآپ کی ران پر رکھ کر سوار ہوجائیں۔ یہ رسولِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا اندازِ کریمانہ تھا لیکن حضرت صفیّہ رضی اللہُ عنہا اندازِ اَدَب اختیار فرماتے ہوئے اپنے قدم کے بجائے اپنے زانو کو آپ کی مبارک ران پر رکھ کر سوار ہوئیں۔ رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نےآپ کو اپنا ردیف بنایا (یعنی سواری پر اپنے پیچھے بٹھایا) اور پردہ باندھا۔ ([10])
(2)ایک موقع پر حضرت معاذ رضی اللہُ عنہ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے ردیف تھے تو آپ نے فرمایا: اے معاذ بن جبل! اُنہوں نے عرض کی: لَبَّيْكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ وَسَعْدَيْكَ، (یعنی یارسولَ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم میں حاضر ہوں، خدمت کے لئے تیار ہوں) آپ نے (دوبارہ) فرمایا: اے معاذ! عرض کی: لَبَّيْكَ يَا رَسُولَ اللہ وَسَعْدَيْكَ، یہ (مکالمہ جب) تین بار ہوا تو رسولِ پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: جوشخص سچّے دل سے اس بات کی گواہی دے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد( صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم )اللہ کے رسول ہیں تو اللہ پاک جہنّم پر اُسےحرام فرما دے گا۔ ([11])
دورانِ سفر آرام کرنے کا انداز:
رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سفر کے دوران آرام کے یہ انداز ہوتے:
(1)آپ رات کو آرام کے لئے سیدھی کروٹ پر لیٹتے۔
(2)جب آپ صبح ہونے سےکچھ پہلے لیٹتے تو آپ مبارَک کہنی کھڑی فرماکر سَر ہتھیلی پر رکھ لیتے۔([12])
دورانِ سفر اندازِ دُعا:
(1)رسولِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم جب کسی سَفَر میں ہوتے اور سویرا پاتےتو یوں فرماتے: سننے والے سُن لیں کہ ہم اﷲ کی حمد کرتے ہیں اس کی ہم پر اچّھی نعمت ہے۔اے ہمارے ربّ! تو ہمارا ساتھی ہو جا اور ہم پر فضل کر، آگ سے اﷲ کی پناہ لیتا ہوں۔ ([13])
(2)حضرت عبدُاﷲ ابن سَرْجِس رضی اللہُ عنہ بیان فرماتے ہیں: جب رسولُ اﷲ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سفر کرتےتو ان چیزوں سے پناہ مانگتےتھے: (۱)سفر کے نقصانات سے (۲)اور واپسی کی تکلیفوں سے (۳)اور بھلائی کے بعد بُرائی سے (۴)مظلوم کی بددُعاسے (۵)اور گھر بار و مال میں بُرائی دیکھنے سے۔([14])
سَفَر سے واپَسی پر دُعا پڑھنے کا انداز:
رسولُ اﷲ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم جب جہاد یا حج یا عمرے سے واپس ہوتے تو ہر اُونچی زمین پر تین بار اللہ اکبرکہتے پھر کہتے:
لَا اِلٰهَ اِلَّا اللَّهُ وَحْدَهٗ لَا شَرِيكَ لَهٗ، لَهُ الْمُلْكُ، وَلَهُ الْحَمْدُ، وَهُوَ عَلٰى كُلِّ شَىْءٍ قَدِيرٌ، آيِبُونَ تَائِبُونَ عَابِدُونَ سَاجِدُونَ لِرَبِّنَا حَامِدُونَ صَدَقَ اللَّهُ وَعْدَهٗ وَنَصَرَ عَبْدَهٗ وَهَزَمَ الاَحْزَابَ وَحْدَهٗ
یعنی اﷲ کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ اکیلا ہے،اس کا کوئی شریک نہیں، اسی کے لئے بادشاہت ہے، اسی کی تعریف ہے،وہ ہر چیز پر قادر ہے ہم لوٹ رہے ہیں، توبہ کرتے ہیں،عبادت کرتے ہیں، اپنے ربّ کو سجدے کرتے ہیں، اپنے رب کی حمد کرتے ہیں، اﷲ نے اپنا وعدہ سچّا کردیا، اپنے بندے کی مدد کی اور اَحْزاب کو اکیلے ہی بھگادیا۔ ([15])
کوشش کیجئےکہ ہمارا سَفَر بھی اِسی طرح گزرے اور اِسی انداز پر اِس کا اختتام ہو۔ اللہ کریم ہمیں رسولِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے پیارے پیارے انداز اپنانے کی تو فیق عنایت فرمائے۔
اٰمِیْن بِجَاہِ خَاتَمِ النَّبِیّٖن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
* ذمہ دار شعبہ فیضان حدیث، المدینۃ العلمیہ کراچی
Comments