
ماں باپ کے نام
”تربیت“ گھروالوں کی اجتماعی ذمہ داری
*مولانا محمد بلال عطاری مدنی
ماہنامہ فیضانِ مدینہ جون 2025ء
3 سالہ بچے کے ہاتھوں ماں کا قتل
امریکی ریاست شکاگو میں ایک شادی شدہ جوڑا اپنے 3 سالہ بچے کے ہمراہ سپر مارکیٹ گیا، شاپنگ کے بعد شوہر برگر خریدنے چلا گیا، جبکہ بیوی اور بچہ پارکنگ ایریا میں موجود اپنی کار میں آکر بیٹھ گئے، کار میں باپ کی پستول رکھی تھی جو بیٹے کے ہاتھ میں آگئی، بیٹے نے کھیل کھیل میں پستول اپنی ماں پر تان کر کہا: ہینڈز اپ!اور ٹریگر دبا دیا، گولی چل گئی اور ماں موقع پر ہی ہلاک ہوگئی۔ پولیس نے پستول رکھنے اور بے احتیاطی کے الزام میں باپ کو گرفتار کرلیا اور بچے کو یتیم خانے بھیج دیا گیا۔([1])
محترم والدین! ”باپ نے پستول کار میں کیوں رکھی؟ پستول لاک کیوں نہیں کی گئی تھی؟ بچے کے ہاتھ میں پستول کیسے آئی؟ ایسی صورتِ حال میں ماں کو کیا کرنا چاہئے تھا؟ اسلحہ رکھنے کی احتیاطیں کیا کیا ہیں؟ وغیرہ وغیرہ“ یہ سارے سوالات ہمارا موضوعِ سخن نہیں ہیں۔مذکورہ بالا واقعہ ذکر کرنے کا مقصد انسان کے اعصابی نظام میں موجود کچھ خاص ”عصبی خَلیوں“ کی طرف توجہ دلانا ہے جنہیں ”مِرَر نیورونز (Mirror Neurons)“ کہا جاتا ہے۔ یہ کیا ہوتے ہیں؟ آئیے! جانتے ہیں۔
مِرَر نیورونز(Mirror Neurons) کیا ہیں:
مشہور جملہ ہے: ”بچے وہ نہیں کرتے جو ہم کہتے ہیں، بلکہ وہ کرتے ہیں جو ہمیں کرتا دیکھتے ہیں۔“ اور واقعی یہ جملہ ایک کائناتی حقیقت ہے جس کا مشاہدہ ہر سمجھ دار شخص نے کبھی نہ کبھی ضرور کیا ہوگا۔ سوال یہ ہے کہ بچوں کے ایسا کرنے کے پیچھے وجہ کیا ہے؟ تو جواب ہے: مِرَر نیورونز۔ جی ہاں! مِرَر نیورونز اللہ پاک کے عطاکردہ اعصابی نظام کا وہ اہم حصہ ہیں جن کی مدد سے انسان دوسروں کے جذبات سمجھتا، ان کی نقل کرتا اور سماجی زندگی میں اپنی پہچان بناتا ہے۔ بالفاظِ دیگر، لوگوں کے درمیان رہ کر افادے اور استفادے کے اصول کے مطابق ایک کامیاب زندگی گزارنے کے لئے مِرَر نیورونز کلیدی حیثیت رکھتے ہیں، ان کی کمزوری یا غیر موجودگی انسان کونارمل زندگی سے بہت دور لے جاتی ہے اور وہ عضو معطل بن کر رہ جاتا ہے۔
عقل کے کچے نقل کے پکے
جیسے جیسےانسان زندگی کی سیڑھیاں چڑھتا ہے اپنی ذہنی استعداد کے مطابق سماجی زندگی گزارنے کا ڈھنگ سیکھتا رہتا ہے۔ لیکن جہاں تک بچپن کا تعلق ہے تو وہاں ایک بچے کو سماجی زندگی کی دوڑ میں شامل رکھنے کے لئے یہی مِرَر نیورونز ہی مددگار ثابت ہوتے ہیں، کیونکہ ذہنی عدم پختگی کی بنا پر بچہ صحیح اور غلط میں فرق کرنے کی صلاحیت سے عاری ہوتا ہے، اس لئے دوسروں کے کردار و گفتار کی نقل کرنے کے علاوہ اس کے پاس اور کوئی چارہ نہیں ہوتا۔ ”اصلی اور نقلی پستول میں کیا فرق ہوتا ہے؟ پستول کب، کیوں اور کس پر چلانی ہے؟“ جیسے سوالات کے بجائے اس کے لئے صرف ایک سوال اہم ہوتا ہے: ”پستول کیسے چلانی ہے؟“ اب چاہے جواب حقیقی منظر سے ملے یا ڈیجیٹل منظر سے، ایک بار جواب مل گیا تو دیر صرف پستول ہاتھ لگنے کی ہوتی ہے اور وہ جب بھی ہاتھ لگتی ہے منظر Repeat ہوتا ہے۔ اصل کا منظر چاہے حقیقی رہا ہو یا ڈیجیٹل، نقل کا منظر 100 فی صد حقیقی ہوتا ہے۔ عالمی خبر رساں اداروں کے مطابق صرف امریکہ میں ایسے کیسز کی تعداد پچھلے 10 سالوں کے درمیان 3 ہزار سے زیادہ رہی ہے جس کی ایوریج ایک مہینے میں 25 کیسز بنتی ہے۔
محترم والدین! جب ہم یہ بات سمجھ چکے کہ بچے عقل کے کچے لیکن نقل کے پکے ہوتے ہیں اور یہی Toolان کی زندگی کا پہلا اُصول ہوتا ہے تو اب یہ گھر کے تمام افراد کی اجتماعی ذمہ داری ہے کہ بچوں کے سامنے وہی منظر پیش کریں جس کی نقل ان کیلئے نہ صرف دنیا بلکہ آخرت میں بھی کامیابی کی ضامن ہو، دوسرے لفظوں میں یوں کہہ لیجئے کہ ہمیں پہلے خود اعلیٰ گفتار و کردار کا ”غازی“ بننا ہوگا تاکہ ہماری نقل بچوں کے لئے صحت مند ”غذا“ ثابت ہو۔
ذِکرُ اللہ کی لذّت
مشہور ولیُّ اللہ حضرت سہل بن عبداللہ تستری رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں: میری عمر 3 سال تھی اور میں رات کو اٹھ کر اپنے ماموں جان کو تنہائی میں نماز پڑھتے دیکھتا تھا۔ ایک دن ماموں جان نے کہا: آپ اللہ پاک کو یاد نہیں کرتے؟ پھر آپ نے اس کا طریقہ بھی سکھایا کہ جب بستر پر لیٹنے لگو تو دل میں یہ کلمات کہا کرو:
”اَللہُ مَعِیَ،اَللہُ نَاظِرٌ اِلَیَّ،اَللہُ شَاھِدِیْ
یعنی اللہ میرے ساتھ ہے، اللہ مجھے دیکھ رہا ہے، اللہ میرا گواہ ہے۔“
ماموں جان کی ہدایت کے مطابق شروع میں چند دن 3 بار یہ کلمات دل میں کہے، بعد میں 7 بار کہنے لگا اور پھر 11 بار کہنا شروع کردئیے جس کی لذت سالہا سال تک میرے دل نے محسوس کی۔ ([2])
اس واقعے سے دو باتیں سیکھنے کو ملتی ہیں:(1)تربیت صرف والدیا والدہ کی نہیں، بلکہ گھر کے ہر فرد کی ذمہ داری ہے۔ جوائنٹ فیملی سسٹم میں رہنے والوں کو بھی یہ بات ذہن میں رکھنی چاہئے کہ بچہ نقل کرنے میں صرف والدین کا پابند نہیں ہوتا بلکہ خاندان کے دیگر افراد بھی اپنے کردار سے لاشعوری طور پر بچے کی اچھی یا بری تربیت کرنے میں اپنا حصہ ملارہے ہوتے ہیں۔ (2)تربیت کی ابتدا کسی خاص عمر سے نہیں ہوتی۔ جیسے ہی بچہ دنیا میں آنکھ کھولتا ہے اس کے مِرَر نیورونز کام کرنا شروع کردیتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ دودھ پیتا بچہ بھی جذبات سمجھتا ہے، پیار کیا جائے تو مسکراتا ہے اور جھڑکا جائے تو رونے لگتا ہے۔ جو لوگ یہ بات نہیں سمجھتے اور ”ابھی تو بچہ ہے“ کہہ کر تربیت سے غافل رہتے ہیں ان کے بچے 3 سال کی عمر میں ہی (اگر موجود ہو تو اصلی)پستول اٹھالیتے ہیں اور ’’ہینڈز اپ‘‘ کہہ کر کھیل کھیل میں یا تو زخمی کر ڈالتے ہیں یا جان سے ہی مار دیتے ہیں، جبکہ جو لوگ اس عمر میں بھی تربیت سے غافل نہیں ہوتے ان کے بچے 3 سال کی عمر سے ہی جائے نماز، تسبیح اور قاعدہ اٹھاتے نظر آتے ہیں۔ فیصلہ ہمارے اوپر ہے کہ ہم اپنے بچوں سے کیا چاہتے ہیں؟ پستول کی گولی!! یا اللہ اللہ کی بولی!!
بیٹے کی وجہ سے نماز
تابعی بزرگ حضرت سعید بن جبیر رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں: میں اپنے بیٹےکی وجہ سے زیادہ (نفل) نماز پڑھتا ہوں۔([3]) اسی طرح ایک اور تابعی بزرگ حضرت سعید بن مسیب رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں: میں (نفل) نماز پڑھتا ہوں، پھر مجھے اپنے بیٹے کا خیال آتا ہے تو نماز میں اضافہ کردیتا ہوں۔([4])
مذکورہ بالا دونوں فرامین میں ’’زیادہ نماز پڑھنے‘‘ کا ذکر ہے جس کے دو مطالب اور دو مقاصد ہوسکتے ہیں۔ پہلے دو مطالب ملاحظہ کیجئے: (1)زیادہ نماز پڑھنے سے مراد زیادہ رکعات پڑھنا ہے (2)زیادہ نماز پڑھنے سے مراد لمبی نماز پڑھنا ہے۔ اب دو مقاصد ملاحظہ کیجئے: (1)زیادہ نماز پڑھنے کا مقصد یہ تھا کہ اللہ پاک بیٹے کے معاملے میں نیک باپ کی وجہ سے رعایت فرمائے جیسا کہ قراٰنی واقعے میں نیک باپ کی وجہ سے یتیم بچوں کے معاملے میں رعایت فرمائی تھی۔([5]) (2)زیادہ نماز پڑھتا دیکھ کر بیٹے کو رغبت ملے اور وہ بھی نماز کا عادی بن جائے۔ بیان کردہ دوسرے مقصد کی تکمیل یوں ہوئی کہ حضرت سعید بن جبیر رحمۃُ اللہِ علیہ کے صاحبزادے حضرت عبداللہ بن سعید رحمۃُ اللہِ علیہ اپنے والد سے بھی زیادہ عبادت گزار مشہورہوئے۔([6])
اگر بچوں کو نمازی بنانا ہے تو ان کے سامنے نماز کا منظر پیش کیا جائے، جب وہ یہ منظر بار بار دیکھیں گے تو مِرَر نیورونز کی وجہ سے نماز کے ساتھ جذباتی طور پر جڑ جائیں گے، پھر نقل کرنے کی کوشش کریں گے اور ایک وقت آئے گا کہ پکے نمازی بن جائیں گے۔ یہی طریقہ باقی اچھی عادات کی تربیت دینے میں بھی استعمال کیا جائے، مزید یہ کہ امیرِ اہلِ سنّت حضرت علّامہ محمد الیاس عطار قادری دامت بَرَکَاتُہمُ العالیہ کے عطاکردہ ”گھر میں مدنی ماحول بنانے کے19مدنی پھول“ بھی پیش نظر رکھے جائیں، اِن شآءَ اللہ نتائج دیکھ کر دل باغ باغ ہوجائے گا۔ یہ مدنی پھول امیرِ اہلِ سنّت دامت بَرَکَاتُہمُ العالیہ کے رسالے ”خاموش شہزادہ“ میں درج ہیں، یہ رسالہ مکتبۃُ المدینہ سے حاصل کیجئے یا دعوتِ اسلامی کی ویب سائٹ www.dawateislami.net سے مفت ڈاؤن لوڈ کیجئے۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
* فارغ التحصیل جامعۃ المدینہ اسلامک ریسرچ سینٹر المدینۃ العلمیہ، کراچی
Comments