اسلام کا معاشی نظام (تیسری اور آخری قسط)

اسلام کا نظام

اسلام کا معاشی نظام(تیسری اور آخری قسط)

*مولانا فرمان علی عطّاری مدنی

ماہنامہ فیضانِ مدینہ جون 2025ء

گذشتہ سے پیوستہ

معاشی نظام کے استِحکام کے لئے اسلامی قوانین

(1)حقوقُ االلہ کی ادائیگی:

معاشی استحکام کی ایک وجہ حقوقُ االلہ کی پاسداری بھی ہے،یادرہے اہل وعیال کی کفالت کے لئے رزقِ حلال کمانا عِبادت ہے مگر ان کے حُقوق کی ادائیگی کرنے یا زیادہ مال کمانے کی لالچ میں ایسا بھی مگن نہیں ہونا چاہئے کہ بندہ حقوقُ االلہ سے بھی غافل ہوجائے۔ اگر ہم اسلاف کے طرزِ زندگی کا مطالعہ کریں تو معلوم ہوگا کہ یہ نفوسِ قدسیّہ تجارت کے ساتھ نہ صرف فرض عبادت بلکہ نفل عبادات کا بھی معمول بنایا کرتے تھے، حضرت قَتادہ  رضی االلہ عنہ فرماتے ہیں کہ صحابَۂ کرام  علیہمُ الرّضوان  تجارت تو کرتے تھے، مگر جب انہیں حقوقُ االلہ میں سے کوئی حق پیش آجاتا تو تجارت اور خریدو فروخت انہیں ذِکْرُااللہ سے نہ روکتی،یہاں تک کہ وہ اُسے اَدا کرلیتے۔ ([1])صحابَۂ کرام  علیہمُ الرّضوان  کے اسی طرزِعمل کو بیان کرتے ہوئے،االلہ پاک قرآنِ کریم میں اِرشاد فرماتا ہے:

(رِجَالٌۙ-لَّا تُلْهِیْهِمْ تِجَارَةٌ وَّ لَا بَیْعٌ عَنْ ذِكْرِ اللّٰهِ وَ اِقَامِ الصَّلٰوةِ وَ اِیْتَآءِ الزَّكٰوةِﭪ-)

ترجَمۂ کنز الایمان:وہ مرد جنہیں غافل نہیں کرتا کوئی سودا اور نہ خرید و فروخت االلہ كی یاد اور نَماز برپا رکھنے اور زکوٰۃ دینے سے۔([2])

حضرت ابنِ مسعود  رضی االلہ عنہ  نے دیکھاکہ بازار والوں نے اَذان سنتے ہی اپنا (تجارتی)سامان چھوڑا اور نَماز کے لئے اُٹھ کھڑے ہوئے۔ اس پر آپ  رضی االلہ عنہ  نے فرمایاکہ اِنہی لوگوں کے حق میں االلہ نے آیت

رِجَالٌۙ-لَّا تُلْهِیْهِمْ

نازِل فرمائی ہے۔([3])

جس شخص کو اُس کے مال نے نَماز سے غافل رکھا تو وہ قارون کے مشابہ ہے اور وہ بروزِقِیامت قارون کےساتھ اٹھاياجائے گا۔([4])

لہٰذا اگر ہم کسبِ حلال کے وقت فرائض کی پابندی کے ساتھ ساتھ ذِکرو دُرود کی عادت بھی بنائیں گے تو اس سے ہمارا کاروبار مستحکم ہوگا۔

(2)سچ بولنا:

 معاشی استحکام کی ایک وجہ سچ بولنا بھی ہے جو ایک اچّھی صفت ہے جس کے بڑے فوائد ہیں،عام معاملات ہوں یا کسب و تجارت ہر معاملے میں ہمیشہ سچّی بات ہی کرنی چاہئے اور جھوٹ سے بچنا چاہئے،عموماً تاجروں کی عادت ہوتی ہے کہ اپنی چیز جلدی فروخت کرنے کے لئے گاہک کو جھوٹ بول کر راغب کرتے ہیں اور بعض تو جھوٹی قسمیں کھانے سے بھی گریز نہیں کرتے، ایسے لوگ سچ کو اپنی کاروباری ترقّی کے لئے رکاوٹ سمجھتے ہیں۔ یاد رکھئے! جو رِزْق ہمارے نصیب میں لکھ دیا گیا ہمیں وہی ملے گا، سچ بولنے سے نہ تو ہمارے رزق میں کمی آئے گی اور نہ ہی جھوٹ بول کر نصیب سے زیادہ حاصل کر سکتے ہیں، البتہ جھوٹ بولنا بے بَرَکتی اور معاشی تباہی کا سبب بن سکتاہے۔لہٰذا تجارت میں سچ کی عادت اپنائیے کہ نبیِ پاک  صلَّی االلہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے فرمایا: خرید وفروخت کرنے والے جب تک سودا مکمل نہ کرلیں، انہیں اختیار حاصل ہے، اگر وہ سودا کرتے ہوئے سچ بولیں اور سچ بیان کریں تو ان کے سودے میں بَرَکت ڈال دی جاتی ہے۔([5])

(3)محنت:

معاشی استحکام کی ایک وجہ کاروبار کو محنت اور لگن کے ساتھ وقت دینا بھی ہے،کوئی بھی کام بے دلی سے یا رغبت کے بغیر کیا جائے تو اس میں نقصان اور کمی کااندیشہ رہتاہے، تجارت کے استحکام کے لئے سخت محنت،لگن اور ہوشیاری کی ضَرورت ہوتی ہے کیونکہ بغیر محنت کے تو لقمہ بھی منہ میں نہیں جاتا، تاجر خواہ کتنا ہی بڑا آدمی بن جائے، مگر سارے کام نوکروں پر ہی چھوڑنے کے بجائے خودبھی کچھ کام اپنے ذمہ رکھے اس طرح بھی کاروبار مستحکم اور مضبوط ہوگا۔ االلہ کے آخِری نبی،محمدِ عربی  صلَّی االلہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے فرمایا: بے شک االلہ پاک طلبِ معاش میں تکلیف اُٹھانے والے مومن کو پسند فرماتا ہے۔([6])نبیِ پاک  صلَّی االلہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کی خدمت میں سُوال ہوا: سب سے پاکیزہ عمل کون سا ہے؟ فرمایا: آدمی کا اپنے ہاتھ کی کمائی کھانا۔([7])

(4) معیاری چیز:

معاشی استحکام کے لئے ضَروری ہے کہ فروخت کردہ چیز معیاری اور اعلیٰ کوالٹی کی ہو۔ اگر آپ کی پراڈکس گھٹیا معیار کی ہوگی تو خریدار صرف ایک ہی بار دھوکا کھائے گا دوبارہ آپ سے خریداری نہیں کرے گا جبکہ اگر آپ معیار کو ترجیح دیں گے اور عمدہ کوالٹی کی چیزیں رکھیں گے تو آپ کے خریدار بڑھیں گے اور خریدار خود ہی آپ کی تشہیر کریں گے آپ کو تشہیر کے لئے کوئی بورڈ یا پوسٹ وغیرہ نہیں لگانا پڑے گی۔اس طرح آپ کا کاروبار ترقّی کرے گا۔

(5)خوش اخلاقی:

تجارت اور کاروبار کو مستحکم کرنے کے لئے تاجرکو اپنا اخلاق بھی اچّھا رکھنا چاہئے۔ بعض دکانوں پر خریداروں کا کافی رش ہوتاہے،ان تاجروں کی کامیابی کا ایک راز یہ بھی ہوتا ہے کہ وہ اپنے گاہک سے اچّھے اخلاق سے پیش آتے ہیں، انہیں چائے، بسکٹ اورٹھنڈےمشروبات وغیرہ پیش کرتے ہیں،گاہک اگرایک چیز دکھانے کا مطالبہ کرے تو وہ 10چیزیں اُس کے سامنے رکھ دیتے ہیں۔گاہک کے ساتھ ان کا اخلاق اتنا اچّھا ہوتا ہے کہ وہ خریداری کئے بغیر نہیں جاتا،حتّٰی کہ اگر کوئی گاہک بدسُلوکی سے پیش آئے تو وہ اسے بھی خندہ پیشانی سے برداشت کرتے ہیں اوراپنا گاہک نہیں ٹُوٹنے دیتے۔ لہٰذا کاروبار کو مستحکم کرنے کے لئے تاجر اور دکاندار کو خوش اخلاق،ملنساراور خیرخواہی کرنے والا ہونا چاہئے۔

جدید معاشی ذرائع اور اسلام کی تعلیمات

آج کے اس ترقّی یافتہ دور میں نئی سے نئی ایجادات ظاہر ہو رہی ہیں، نِت نئے منصوبے اور تجربات کاظہور ہورہا ہے، ٹیکنالوجی کے اس جدید دور میں کاروبار اور تجارت کی بھی متنوع صورتیں اور طریقے رائج ہوچکے ہیں جن کی مِثال ماضی میں دیکھنے کو نہیں ملتی، مثلاً بینکوں کا نظام، ڈیبٹ کارڈ سے خریداری،اِنشورنس کا نظام، تکافل کا نظام، شیئرز کی خریداری کا نظام،آن لائن خریدو فروخت، قسطوں پر اشیاء کی خریداری، زمینوں کی خریدو فروخت وغیرہ وغیرہ۔ خریدو فروخت کی ان صورتوں میں کمپنیز اور بزنس مین افراد صرف اپنے نَفْع کو ہی ملحوظ رکھتے ہیں، حالانکہ ایک مسلمان کا یہ ذِہن ہونا چاہئے کہ اس بارے میں شریعت اور اسلامی تعلیمات ہماری کیا راہنمائی کرتی ہے جبکہ ہمیں اس سے کوئی سروکار نہیں ہوتا،بعض صورتوں میں سود بن رہا ہوتا ہے،بعض میں گاہک یا خریدار میں سے کسی ایک کو نقصان ہورہا ہوتا ہے،بعض اوقات رشوت کی صورت بنتی ہوگی۔ لہٰذا مسلمان ہونے کی حیثیت سے ہمیں کوئی بھی کام کرنے بالخصوص تجارت و کاروبار کرنے سے پہلے اس بارے میں شَرْعی راہنمائی لینی چاہئے تاکہ اس سے حاصل ہونے والے نَفع کو حلال رِزْق کی صورت میں اپنے اہل و عیال پرخرچ کریں۔

تجارت و لین دین سے متعلق مسائل کا حل معلوم کرنے کے لئے دعوتِ اسلامی کے دار الافتاء کے تحت قائم ”مرکز الاقتصاد الاسلامی“ (Islamic Economics Centre) کے ذریعے آپ پہلے سے وقت (Appointment)لے کر اپنے مسائل کے لئے میٹنگ طے کر سکتے ہیں۔ کراچی سے تعلّق   رکھنے والے افراد بِالمشافہ ملاقات کرسکتے ہیں جبکہ بیرونِ ملک اور کراچی سے باہر والے افراد آن لائن میٹنگ کی سہولت لے سکتے ہیں۔

Appointment لینے کے لئے درج ذیل ای میل/فون نمبر پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔

appointment@iecdawateislami.com

0303-7862512(11 AM to 4 PM)

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* فارغ التحصیل جامعۃ المدینہ شعبہ ماہنامہ فیضانِ مدینہ کراچی



([1])بخاری،2/8، تحت الباب:8

([2]18، النور:37

([3])معجم کبیر، 9/222، حدیث:9079

([4])کتاب الکبائر،ص21

([5])التر غیب والترہیب،2/366، رقم4

([6])جامع صغیر، ص 116، حدیث: 1873

([7])شعب الایمان، 2/ 88، حدیث: 1238


Share