
اسلام کا نظام
اسلام کامعاشی نظام (قسط: 01)
*مولانا فرمان علی عطاری مدنی
ماہنامہ فیضانِ مدینہ اپریل 2025
معیشت انسانی زندگی کا لازمی حصہ ہے، اس کی اہمیت کو بیان کرتے ہوئے عظیم فقیہ و مفتی حضرتِ علّامہ مولانا محمد امجد علی اعظمی رحمۃُ اللہِ علیہ اس کی اہمیت بتاتے ہوئے فرماتے ہیں کہ انسانی ضروریات اتنی زائد اور اُن کی تحصیل (یعنی حاصل کرنے) میں اتنی دُشواریاں ہیں کہ ہر شخص اگر اپنی تمام ضروریات کا تنہا مُتَکَفِّل(ذِمّے دار )ہونا چاہے غالباً عاجز ہو کر بیٹھ رہے گااور اپنی زندگی کے ایّام خوبی کے ساتھ گُزار نہ سکے گا، لہٰذا اُس حکیمِ مُطْلق( عزوجل ) نے انسانی جماعت کو مختلف شعبوں اور مُتَعدّد قسموں پرمنقسم(یعنی تقسیم) فرمایا کہ ہر ایک جماعت ایک ایک کام انجام دے اور سب کے مجموعہ سے ضروریات پوری ہوں۔ مثلاً کوئی کھیتی کرتا ہے کوئی کپڑا بنتا ہے،کوئی دوسری دستکاری کرتا ہے، جس طرح کھیتی کرنے والوں کو کپڑے کی ضرورت ہے، کپڑا بُننے والوں کو غلّہ کی حاجت ہے، نہ یہ اُس سے مستغنی (یعنی بے پروا)نہ وہ اس سے بے نیاز، بلکہ ہر ایک کو دوسرے کی طرف احتیاج(و ضرورت)، لہٰذا یہ ضرورت پیدا ہوئی کہ اِس کی چیز اُس کے پاس جائے اور اُس کی اِس کے پاس آئے تاکہ سب کی حاجتیں پوری ہوں اور کاموں میں دُشواریاں نہ ہوں۔یہاں سے مُعاملات کا سلسلہ شروع ہوا ،بیع (یعنی خرید و فروخت) وغیرہ ہر قسم کے مُعاملات وجود میں آئے۔ ([1])
دینِ اسلام نے جس طرح زندگی کے ہر شعبے میں ہماری راہنمائی کی ہے اسی طرح کسب و تجارت کرنے اور روزی کمانے کے حوالے سے بھی بہترین معاشی نظام مہیا کیا ہے اور اس کے تفصیلی اصول و قوانین سکھائے ہیں۔ دینِ اسلام کا معاشی نظام بھلائی، خیر خواہی،عدل وتوکل اورقناعت جیسی خوبیوں پر قائم ہے۔
اگر ہم معیشت اور اسلامی تعلیمات پر غور کریں تو اس عنوان کو 6 پہلوؤں پر تقسیم کرکے بیان کرسکتے ہیں:
(1)کسبِ معاش اور اسلامی تعلیمات
(2)زمانہ جاہلیت کے معاشی نظام کا سرسری جائزہ
(3)صحابہ کرام اور ذریعہ معاش
(4)معاشی نظام کی تباہی کے اسباب اسلام کی نظر میں
(5)معاشی نظام کے استحکام کے لیے اسلامی قوانین
(6)جدید معاشی ذرائع اور اسلام کی تعلیمات
کسبِ معاش اور اسلامی تعلیمات:کسب معاش کے لئے کوشش کرنا خود شارع اسلام کی سنت ہے اور اسلام کی تعلیمات بھی ہر مسلمان کو یہی درس دیتی ہیں کہ ہر ایک اپنے اور اپنے اہل وعیال کی کفالت و پروش کے لئے ذریعۂ معاش کو اختیار کرے اور رزق کا انتظام کرے،اللہ پاک یقیناًجن و انسان اور حشرات و حیوان سب کے رزق کا ضامن ہے وہ قادرِ مطلق بلاشبہ ہماری محنت و کوشش کے بغیر بھی ہمیں کھلانے پر قدرت رکھتا ہے مگر کسب معیشت کا حکم بھی اسی نے دیا ہے۔ قراٰن کریم میں کئی مقامات پر اس کی ترغیب دلائی گئی ہے چنانچہ ارشادِ ربانی ہے:
( وَّ جَعَلْنَا النَّهَارَ مَعَاشًا۪(۱۱))
ترجَمۂ کنزُالایمان: اور دن کو روزگار کے لئے بنایا۔([2])
( وَ مِنْ رَّحْمَتِهٖ جَعَلَ لَكُمُ الَّیْلَ وَ النَّهَارَ لِتَسْكُنُوْا فِیْهِ وَ لِتَبْتَغُوْا مِنْ فَضْلِهٖ وَ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ(۷۳))
ترجَمۂ کنزُالایمان: اور اس نے اپنی مِہر (رحمت) سے تمہارے لئے رات اور دن بنائے کہ رات میں آرام کرو اور دن میں اس کا فضل ڈھونڈو (یعنی کسب ِ معاش کرو) اور اس لئے کہ تم حق مانو۔([3])
نبیِّ پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے بھی نہ صرف اس کی ترغیب ارشاد فرمائی بلکہ اپنے اہل وعیال کی کفالت کے لیے محنت و مشقت کرنے والوں کی حوصلہ افزائی بھی فرمائی جیساکہ فرمانِ مصطفےٰ ہے: اِنَّ اللهَ یُحِبُّ الْمُؤْمِنَ الْمُحْتَرِفَ یعنی اللہ پاک پیشہ ور ( کام کاج کرنے والے) مومن کو پسند فرماتا ہے۔([4])ایک حدیثِ پاک میں فرمایا کہ جو اپنے ہاتھ کے کام سے تھک کر شام کرتاہے وہ مغفرت یافتہ ہوکر شام کرتا ہے۔([5])مزید ارشاد فرمایا: جس نے خودکو سوال سے بچانے ،اپنے اہلِ خانہ کے لئے بھاگ دوڑ کرنے اور اپنے پڑوسی پر مہربانی کرنے کے لئے حلال طریقے سےدُنیا طلب کی وہ اللہ پاک سے اس حال میں ملے گا کہ اس کا چہرہ چودھویں رات کے چاند کی طرح روشن ہوگا۔([6])
زمانۂ جاہلیت کے معاشی نظام کا سرسری جائزہ:بازار سامان تجارت کی خریدو فروخت اور سرمایہ بڑھانے کا نہایت مؤثر ذریعہ ہوتے ہیں ان کی بدولت جہاں تاجر اپنا سامان تجارت فروخت کرتے ہیں اور خریدار قیمت ادا کرکے اپنی ضرورت کی اشیائے خوردو نوش حاصل کرسکتے ہیں،بازاروں کا یہ قدیم رواج قبلِ اسلام بھی رائج تھا ۔ زمانۂ جاہلیت میں عُكَاظ ،مَجَنَّۃ ، ذُو الْمَجاز،حباشہ، دبا وغیرہ مختلف ناموں سے بازار لگا کرتے تھے ان میں سب سے بڑا بازار عُكَاظ تھا۔
نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم بغرضِ تبلیغ اسلام ان بازاروں کا دورہ فرمایا کرتے اور بازاروں میں ہونے والے خریدو فروخت کے معاملات کو بھی ملاحظہ فرماتے تھے۔آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے دورِ جاہلیت میں ہونے والی ناجائز خریدو فروخت کی صورتیں بیان فرمائیں اور تاجر اور خریدار دونوں کو نقصان سے بچانے کے لئے اس تجارت کی خرابیوں کی نشاندہی فرمائی ،مثلاً
(1)بیع مُلامَسہ: یہ ہے کہ ایک شخص نے دوسرے کا کپڑا چھو دیا اور اُولٹ پلٹ کے دیکھا بھی نہیں۔ (2) بیع مُنابَذہ: یہ ہے کہ ایک نے اپنا کپڑا دوسرے کی طرف پھینک دیا اور دوسرے نے اس کی طرف پھینک دیا یہی بیع ہوگئی، نہ دیکھا بھالا، نہ دونوں کی رضا مندی ہوئی۔([7]) (3)بیع مُصَراۃ: یہ ہے کہ جانور کے تھن میں دودھ کو روکا جائے اور کچھ دنوں تک دوہا نہ جائے۔ ([8])تا کہ خریدار اسے زیادہ دودھ دینے والا گمان کر کے اس میں رغبت کرے۔ (4)بیع نَجْش: یہ ہے کہ مبیع کی قیمت بڑھائے اورخود خریدنے کاارادہ نہ رکھتا ہو اس سے مقصود یہ ہوتا ہے کہ دوسرے گاہک کو رغبت پیدا ہواور قیمت سے زیادہ دے کر خریدلے اور یہ حقیقۃً خریدار کو دھوکا دینا ہے۔([9])
دورِ جاہلیت میں تجارت کی ان صورتوں کے علاوہ بھی خریدو فروخت کی ناجائز صورتیں تھیں جن میں یا تو فریقین کی رضامندی نہیں ہوتی تھی،یا دھوکہ اور فریب پایا جاتا تھا یا پھر تاجر اور خریدار میں جھگڑے کا امکان رہتا تھا اس لئے ان صورتوں کو نبیِّ پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے منع فرمادیا ۔
نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے خرید و فروخت میں پائی جانے والی خرابیوں کو دورفرمانے کے لئے خود تجارت بھی فرمائی اور تجارت کے لئے مختلف ملکوں کا سفر بھی اختیار فرمایا جب آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی عمر شریف بارہ برس کی ہوئی تو اس وقت ابوطالب نے تجارت کی غرض سے ملک شام کا سفر کیا۔ ابوطالب کو چونکہ حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّمسے بہت ہی والہانہ محبت تھی اس ليے وہ آپ کو بھی اس سفر میں اپنے ہمراہ لے گئے۔ حضورِ اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اعلانِ نبوت سے قبل تین بار تجارتی سفر فرمایا۔ دو مرتبہ ملک شام گئے اور ایک بار یمن تشریف لے گئے۔([10])
(بقیہ اگلے ماہ کے شمارے میں)
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
* فارغ التحصیل جامعۃ المدینہ شعبہ ماہنامہ فیضانِ مدینہ کراچی
Comments