گزشتہ سے پیوستہ
٭کامل مسلمان کی نشانی ہے کہ وہ رِیاکاری اور دکھلاوے سے کام نہیں لیتا بلکہ صِرف اللہ کریم کی رضا کے لئے نیک اعمال کرتاہے۔ دکھاوا کرنے والوں اور اللہ پاک پر ایمان نہ لانے والوں کے بارےمیں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:( وَ الَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَهُمْ رِئَآءَ النَّاسِ وَ لَا یُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَ لَا بِالْیَوْمِ الْاٰخِرِؕ-وَ مَنْ یَّكُنِ الشَّیْطٰنُ لَهٗ قَرِیْنًا فَسَآءَ قَرِیْنًا(۳۸)) ترجمۂ کنزُالایمان:اور وہ جو اپنے مال لوگوں کے دکھاوے کو خرچ کرتے ہیں اور ایمان نہیں لاتے اللہ اور نہ قیامت پر، اور جس کا مُصاحِب شیطان ہوا، تو کتنا برا مُصاحِب ہے۔(پ5،النسآء:38) (اس اٰیت کی مزید وضاحت کےلئے کلک کریں)
٭مسلمان کو چاہئے کہ وہ صدقہ دینے کے بعداحسان نہ جتلائے تاکہ جسے صدقہ دیا اسے تکلیف بھی نہ ہو اور اس کے صدقے کا ثواب بھی ضائع نہ ہو، ربِّ کریم ارشاد فرماتا ہے:
(یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تُبْطِلُوْا صَدَقٰتِكُمْ بِالْمَنِّ وَ الْاَذٰىۙ-)تَرجَمۂ کنز الایمان:اے ایمان والو اپنے صدقے باطل نہ کردو احسان رکھ کر اور ایذا دے کر۔(پ3،البقرۃ:264) (اس اٰیت کی مزید وضاحت کےلئے کلک کریں)
٭ مسلمان کو چاہئے کہ مرنے سے پہلے ہی اللہ کریم کا دیا ہوا مال راہِ خدا میں بھی خرچ کرے۔ کیونکہ مسلمان کا ایمان ہے کہ قِیامت ضرور آئے گی اور قیامت کا دن بڑی ہیبت والا ہوگا، اس دن مال کسی کو بھی فائدہ نہ دے گا، دنیوی دوستیاں بھی بیکار ہوں گی بلکہ باپ بیٹے بھی ایک دوسرے سے جان چُھڑا رہے ہوں گے، کافروں کو کسی کی سفارش کام نہ دے گی اور نہ ہی دنیوی انداز میں کوئی کسی کی سفارش کرسکے گا۔ اللہ پاک کی اجازت سے صرف اس کے مقبول بندےہی شفاعت کریں گے، البتّہ مال کا فائدہ بھی آخرت میں اسی صورت میں ہوگا کہ جب دنیا میں اسے نیک کاموں میں خرچ کیا ہو اور دوستیوں میں سے بھی نیک لوگوں کی دوستیاں کام آئیں گی، ربِّ کریم کا فرمان ہے: (یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَنْفِقُوْا مِمَّا رَزَقْنٰكُمْ مِّنْ قَبْلِ اَنْ یَّاْتِیَ یَوْمٌ لَّا بَیْعٌ فِیْهِ وَ لَا خُلَّةٌ وَّ لَا شَفَاعَةٌؕ-وَ الْكٰفِرُوْنَ هُمُ الظّٰلِمُوْنَ(۲۵۴))تَرجَمۂ کنز الایمان: اے ایمان والو اللہ کی راہ میں ہمارے دیئے میں سے خرچ کرو وہ دن آنے سے پہلے جس میں نہ خرید فروخت ہے، نہ کافروں کے لئے دوستی، نہ شفاعت اور کافر خود ہی ظالم ہیں۔(پ3،البقرۃ:254) (اس اٰیت کی مزید وضاحت کےلئے کلک کریں)
٭مسلمان کو چاہئے کہ اللہ پاک کی راہ میں اپنا کمایا ہوا پاکیزہ اور صاف ستھرا مال دے، نیز اپنی زمین کی پیداوار سے بھی (اگر شرعاًواجب ہوتاہوتو) راہِ خدا میں خرچ کرے، مسلمان کو اللہ کریم کی راہ میں ناقص اور گھٹیا مال نہیں دینا چاہئے کیونکہ جب اعلیٰ درجے کا مال اللہ کی راہ میں دے گا تو اعلیٰ درجے کی جزا کا حق دار قرار پائے گا۔ اللہ کریم ارشاد فرماتا ہے:( یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَنْفِقُوْا مِنْ طَیِّبٰتِ مَا كَسَبْتُمْ وَ مِمَّاۤ اَخْرَجْنَا لَكُمْ مِّنَ الْاَرْضِ۪-وَ لَا تَیَمَّمُوا الْخَبِیْثَ مِنْهُ تُنْفِقُوْنَ وَ لَسْتُمْ بِاٰخِذِیْهِ اِلَّاۤ اَنْ تُغْمِضُوْا فِیْهِؕ-وَ اعْلَمُوْۤا اَنَّ اللّٰهَ غَنِیٌّ حَمِیْدٌ(۲۶۷))
تَرجَمۂ کنزُ الایمان: اے ایمان والو اپنی پاک کمائیوں میں سے کچھ دو اور اس میں سے جو ہم نے تمہارے لئے زمین سے نکالا اور خاص ناقص کا ارادہ نہ کرو کہ دو تو اس میں سے اور تمہیں ملے تو نہ لوگے جب تک اس میں چشم پوشی نہ کرو اور جان رکھو کہ اللہ بےپرواہ سراہا گیا ہے۔ (پ3،البقرۃ:267) (اس اٰیت کی مزید وضاحت کےلئے کلک کریں)
٭مسلمان کو ہر معامَلے میں عَدْل و انصاف اور سچّائی پر قائم رہنے والا ہونا چاہئے، سچائی پرثابت قدم رہتے ہوئے اگراس کا اپنا یا قریبی رشتہ داروں کا نقصان بھی ہوتا تو بھی پرواہ نہیں کرنی چاہئے ، کیونکہ اللہ کریم نے اسے خواہشِ نفس نہیں بلکہ حق اور عدل پر چلنے کا حکم دیا ہے، فرمانِ باری تعالیٰ ہے: (یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا كُوْنُوْا قَوّٰمِیْنَ بِالْقِسْطِ شُهَدَآءَ لِلّٰهِ وَ لَوْ عَلٰۤى اَنْفُسِكُمْ اَوِ الْوَالِدَیْنِ وَ الْاَقْرَبِیْنَۚ-اِنْ یَّكُنْ غَنِیًّا اَوْ فَقِیْرًا فَاللّٰهُ اَوْلٰى بِهِمَا- فَلَا تَتَّبِعُوا الْهَوٰۤى اَنْ تَعْدِلُوْاۚ-وَ اِنْ تَلْوٗۤا اَوْ تُعْرِضُوْا فَاِنَّ اللّٰهَ كَانَ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْرًا(۱۳۵))
تَرجَمۂ کنزُ الایمان:اے ایمان والو انصاف پر خوب قائم ہوجاؤ اللہ کے لیے گواہی دیتے چاہے اس میں تمہارا اپنا نقصان ہو یا ماں باپ کا یا رشتہ داروں کا جس پر گواہی دو وہ غنی ہو یا فقیر ہو بہرحال اللہ کو اس کا سب سے زیادہ اختیار ہے تو خواہش کے پیچھے نہ جاؤ کہ حق سے الگ پڑو اور اگر تم ہیر پھیر کرو یا منہ پھیر و تو اللہ کو تمہارے کاموں کی خبر ہے۔(پ5،النسآء:135) (اس اٰیت کی مزید وضاحت کےلئے کلک کریں)
٭مسلمان کو راہِ خُدا میں اور دینِ اسلام کی تبلیغ و اِشاعت اور مدد و اِعانت میں جان دینے سے بھی نہیں ڈرنا چاہئے اور راہِ خدا میں جان دینے والوں پر حسرت و ناامّیدی والی باتیں نہیں کرنی چاہئیں بلکہ خود بھی جان و مال قربان کرنے کا جذبہ رکھنا چاہئے، ربِّ کریم فرماتاہے:
( یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَكُوْنُوْا كَالَّذِیْنَ كَفَرُوْا وَ قَالُوْا لِاِخْوَانِهِمْ اِذَا ضَرَبُوْا فِی الْاَرْضِ اَوْ كَانُوْا غُزًّى لَّوْ كَانُوْا عِنْدَنَا مَا مَاتُوْا وَ مَا قُتِلُوْاۚ-لِیَجْعَلَ اللّٰهُ ذٰلِكَ حَسْرَةً فِیْ قُلُوْبِهِمْؕ-وَ اللّٰهُ یُحْیٖ وَ یُمِیْتُؕ-وَ اللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرٌ(۱۵۶)) تَرجَمۂ کنز الایمان: اے ایمان والو ان کافروں کی طرح نہ ہونا جنہوں نے اپنے بھائیوں کی نسبت کہا جب وہ سفر یا جہاد کو گئے کہ ہمارے پاس ہوتے تو نہ مرتے نہ مارے جاتے اس لیے کہ اللہ ان کے دلوں میں اس کا افسوس رکھے اور اللہ جلاتا اور مارتا ہے اور اللہ تمہارے کام دیکھ رہا ہے۔(پ4،اٰل عمرٰن:156) (اس اٰیت کی مزید وضاحت کےلئے کلک کریں)
٭مسلمان کو اپنے معامَلات میں کُفّار و مُشْرکین کو ہر گز رازدار نہیں بنانا چاہئے، اسے یہ معلوم ہونا چاہئے کہ غیرمسلم کسی طرح بھی قابلِ اعتبار نہیں، وہ تو ہردَم مسلمان کو نقصان پہنچانے کی کوشش میں رہتے ہیں، اللہ کریم فرماتا ہے:
(یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوْا بِطَانَةً مِّنْ دُوْنِكُمْ لَا یَاْلُوْنَكُمْ خَبَالًاؕ-وَدُّوْا مَا عَنِتُّمْۚ-قَدْ بَدَتِ الْبَغْضَآءُ مِنْ اَفْوَاهِهِمْ ﭕ وَ مَا تُخْفِیْ صُدُوْرُهُمْ اَكْبَرُؕ-قَدْ بَیَّنَّا لَكُمُ الْاٰیٰتِ اِنْ كُنْتُمْ تَعْقِلُوْنَ(۱۱۸))تَرجَمۂ کنز الایمان: اے ایمان والو غیروں کو اپنا راز دار نہ بناؤ وہ تمہاری برائی میں گئی نہیں کرتے ان کی آرزو ہے جتنی ایذا تمہیں پہنچے بیَر ان کی باتوں سے جھلک اٹھا اور وہ جو سینے میں چھپائے ہیں اور بڑا ہے ہم نے نشانیاں تمہیں کھول کر سنادیں اگر تمہیں عقل ہو۔(پ4،اٰل عمرٰن:118) (اس اٰیت کی مزید وضاحت کےلئے کلک کریں)
٭مسلمان کو اپنے مسلمان بھائیوں کو چھوڑ کر غیرمسلموں سے دوستیاں یاریاں نہیں لگانی چاہئیں، کیونکہ جو لوگ پیدا کرنے والے ربّ تعالیٰ پر ایمان نہیں رکھتے تو وہ اس ربّ کے ماننے والے مسلمانوں کے حامی و دوست کیسے ہوسکتے ہیں! اللہ کریم کا فرمان ہے:
(یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوا الْكٰفِرِیْنَ اَوْلِیَآءَ مِنْ دُوْنِ الْمُؤْمِنِیْنَؕ-)
تَرجَمۂ کنزُ الایمان:اے ایمان والو مسلمانوں کوچھوڑ کر کافروں کو دوست نہ بناؤ۔(پ5،النسآء:144) (اس اٰیت کی مزید وضاحت کےلئے کلک کریں)
(بقیہ اگلے شمارے میں)
٭…راشد علی عطاری مدنی
٭…ناظم ماہنامہ فیضان مدینہ ،کراچی
Comments