فرمانِ مصطفے ٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہے :آفَةُ الْعِلْمِ النِّسْيَانُ، وَاِضَاعَتُهُ اَنْ تُحَدِّثَ بِهٖ غَيْرَ اَهْلِهٖ یعنی علم کی آفت اس کو بُھول جانا ہے اور نااہل سے علم کی بات کہنا علم کو ضائع کرنا ہے ۔([1])
شرح:اس حدیثِ پاک میں علم کے متعلّق دو باتوں کا ذکر کیا گیا ہے (1)علم کی آفت کیا ہے ؟(2) علم ضائع کیسے ہوتا ہے ؟
حکیمُ الاُمّت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: جیسے مال و صحّت بعض آفتوں سے برباد ہوجاتے ہیں ایسے ہی عِلْم بُھولنے سے برباد ہوجاتا ہے ۔([2])
علم کی آفت”نِسْیان“سے بچئے : علم کی آفت یعنی نِسْیان اور بُھولنے کا مرض کوئی معمولی آفت نہیں ہے بلکہ بہت بڑی آفت ہے اس آفت سے کیسے بچا جائے اس سے متعلق حکیمُ الاُمّت مفتی احمد یار خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: عالِم کو چاہیئے کہ علم کا مَشغلہ رکھے ، کُتُب بِینی چھوڑ نہ دے ، حافظہ کمزور کرنے والی عادتوں اور چیزوں سے بچے ۔([3])
علّامہ علی قاری رحمۃ اللہ علیہ نقل فرماتے ہیں کہ بندہ ان اَسباب سے بچے جو کہ نِسیان کا سبب ہیں، جیسا کہ علم کے اِستِحْضار (یاد کرنے )سے اِعراض کرنا اور ان کاموں میں مشغول ہو جانا جو دل کو دنیا کی رنگینیوں میں پھنسا دیں اور عقل کو ضائع کر دیں۔([4])
”نِسْیان“ کے اسباب: علم کی آفت ”نِسْیان“(بُھولنے کے مرض ) میں پھنسنے کا ایک بڑا سبب گناہ بھی ہیں جس سے حافظہ کمزور ہوجاتا ہے چنانچہ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ نے ارشاد فرمایا:
شَكَوْتُ اِلٰى وَكِيْعٍ سُوْ ءَ حِفْظِي فَاَوْصَانِيْ اِلٰى تَرْكِ المَعَاصِيْ
فَاِنَّ العِلْمَ فَضْلٌ مِنْ الٰہٍ وَفَضْلُ اللهِ لَا يُعْطیٰ لِعَاصِي
ترجمہ:میں نے اپنے استاد وَکِیع رحمۃ اللہ علیہ سے حافِظہ کی خرابی کی شکایت کی انہوں نے مجھے گناہ چھوڑنے کی نصیحت فرمائی، کیونکہ عِلْم اللہ پاک کا فضل ہے اور اللہ پاک کا فضل گناہ گار کو عطا نہیں ہوتا۔([5])
علّامہ محمد امین بن عمر عابدین شامی حنفی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ چھ چیزیں حافظہ کمزور کرتی ہیں: (1)چُوہے (Mouse) کا جُوٹھا کھانا (2)جُوں پکڑ کر زندہ چھوڑ دینا (3)ٹھہرے پانی میں پیشاب کرنا (4)عِلْک گُوند(درخت کا وہ گوند جو چبانے سے نہ گُھلے ) چبانا (5)کھٹّا سیب کھانا (6)سیب کے چھلکے چبانا۔([6])
”نِسْیان“ کا علاج: شیخُ الاسلام امام ابراہیم زَرْنُوجی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: (1)مِسواک کرنا (2)شہد کا استعمال رکھنا (3)گوند مع شکر استعمال کرنا (4) نہار منہ(خالی پیٹ) 21دانے کشمش کھانا بھی حافظے کو قوی کرتاہے ۔([7])
مطالعہ محفوظ رکھنے کے طریقے :کچھ طریقے وہ بھی ہیں جن کو بروئے کار لاتے ہوئے زیادہ دیر تک معلومات کو اپنے حافظے میں محفوظ رکھا جاسکتا ہے مثلاً (1) مطالعہ کرنے کے بعدتمام مطالعے کو ابتداسے انتہا تک سَرسَرِی نظر سے دیکھا جائے اور اس کا ایک خلاصہ اپنے ذہن میں نقش کرلیا جائے (2) جومطالعہ کریں اُسے اچّھی اچّھی نیّتوں کے ساتھ اپنے گھر والوں اور دوستوں سے بیان کریں اس طرح بھی معلومات کا ذخیرہ طویل مدّت تک ہمارے دماغ میں محفوظ رہے گا (3)مشہور مقولہ ہے :’’مَاتَکَرَّرَ تَقَرَّرَ یعنی جس بات کی تکرار کی جاتی ہے وہ دِل میں قرار پکڑلیتی ہے ۔‘‘ جو کچھ پڑھیں اس کی دُہرائی (Repeat) کرتے رہیئے (4)علمی محافل میں شرکت کی عادت ڈالنے کی برکت سے جہاں علم میں پختگی آئے گی وہیں معلومات کا بیش قیمت خزانہ ہاتھ آئے گا۔
نااہل کو علم دینا: یاد رکھئے کہ مال خرچ کرنے سے کم ہوتا ہے اور عِلم وہ شمع ہے جسے جتنا پھیلایا جائے گھٹتا نہیں بلکہ اس کی روشنی اتنی ہی پھیلتی ہے ، مگر نا اہل شخص کے سامنے علم کے راز و اَسْرار بیان کئے جائیں تو وہ ان عِلمی نِکات کو سمجھ نہیں سکے گا اورغلط فہمی میں مبتلا ہوجائے گایا پھر اپنی ناسمجھی کی بنا پر وہ خواہ مخواہ ان علمی نکات کا انکار کر بیٹھے گا۔ نااہل سے مُراد کون لوگ ہیں اس کے بارے میں علامہ عبدُالرَّءوف مُناوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:یہ وہ لوگ ہیں جو علم کی باتوں کو سمجھ نہیں سکتے یا اس پر عمل نہیں کرتے ۔ لہٰذا ایسے لوگوں کے سامنے علم کی بات کرنا علم کو مُہْمَل و بیکار بنانے کے مُتَرادِف ہوگا۔([8])
علّامہ علی قاری رحمۃ اللہ علیہ نقل فرماتے ہیں کہ علم کو ضائع کرنے کا مطلب یہ ہے کہ علم کی بات اس دنیا دار کو بیان کرنا جو نہ اسے سمجھ سکتا ہو اور نہ اس پر عمل کرتا ہو۔([9])
امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ کثیر حَضْرَمی رحمۃ اللہ علیہ سے روایت کرتے ہیں کہ حکمت کی بات اَحمقوں کو بیان نہ کرو کہ وہ تمہیں جُھٹلا دیں گے اور باطل باتیں حُکما کو بیان نہ کرو وہ تم پر غضبناک ہوں گے ۔ اپنے علم کو اس سے نہ روکو جو اس کا اہل ہو کہ گنہگار ہوگے اور اس سے بیان نہ کرو جو اس کا اہل نہ ہو کہ وہ تم کو بیوقوف سمجھے گا۔ بے شک تجھ پر تیرے علم کا ایسے ہی حق ہے جس طرح تیرے مال کا حق ہے ۔([10])
Comments