بعض اوقات کچھ لوگ یہ جملہ بولتے ہیں کہ دین تو بڑا آسان تھا لیکن علماء نے دین مشکل بنا دیا۔ اس میں کس حد تک صداقت ہے اس کا جائزہ لیتے ہیں۔ یہ جملہ بولنے والے دو طرح کے لوگ ہیں۔ ایک وہ جو کسی سے سن کر بےسوچے سمجھے بول دیتے یا کسی کی ہاں میں ہاں ملا دیتے ہیں۔ ایسوں کے کہنے کا تو کوئی اعتبار ہی نہیں ہے کیونکہ ان کی اپنی کوئی سوچ ہوتی ہی نہیں۔ اسی لئے کسی دوسری محفل میں کوئی کہہ دے کہ مَاشَآءَ اللہ علماء نے کتنا دین کا کام کیا ہے اور ہمارے لئے کتابیں لکھ کر کتنی آسانی کردی ہے تو یہ اس کی بھی ہاں میں ہاں ملادیں گے۔اکثریت ایسے ہی لوگوں کی ہے کیونکہ اخبار، ٹی وی، سوشل میڈیا وغیرہ پر ایک ایک چیز پر سوسو قسم کے خیالات پڑھ، سُن کر قوم کی اکثریت ویسے ہی کنفیوز ہوچکی ہے اور انہیں یہی سمجھ نہیں آتا کہ صحیح کیا ہے اور غلط کیا ہے؟ بلکہ بعض اوقات تو یہی سمجھ نہیں آتا کہ میری اپنی سوچ کیا ہے؟ ایسے کنفیوزڈ دماغ کے کہنے کا کیا اعتبار؟
دوسری طرف وہ لوگ ہیں جو وسوسے ڈالنے کا کارِ شیطانی سرانجام دینے کی ذمہ داری پر فائز ہیں اور دوسروں کے ایجنڈے پر یا خود اپنی ہی مسخ شدہ سوچ کی وجہ سے حقیقت میں دین ہی سے بیزار ہیں لیکن چونکہ دین اور اسلام کے بارے میں اِس بیزاری کا اظہار ایک اسلامی ملک یا مسلمانوں میں ممکن نہیں تو بنی اسرائیل کے ہفتے کے دن مچھلی پکڑنے والے حیلہ سازوں کی پیروی کرتے ہوئے حیلے کے طور پر علماء کا نام استعمال کرلیتے ہیں۔ یوں اصل ہدف تو اسلام ہی ہوتا ہے لیکن کچھ چھپن چُھپائی کے طور پر ’’مولوی‘‘ کا نام بول دیتے ہیں۔
ایسے لوگوں کے اِس جملے”دین تو بڑا آسان تھا لیکن علماء نے دین مشکل بنادیا۔“ کا کچھ تجزیہ کرتے ہیں۔اِن لوگوں سے دو سوال ہیں: ایک یہ کہ ذرا تفصیل سے بتائیں کہ علماء نے دین کو کیسے مشکل کیاہے اور دین کی کون کون سی چیز کو مشکل کیا ہے؟ اور دوسرا سوال یہ ہے کہ ہم آپ کے سامنے احکام کی ایک فہرست رکھتے ہیں، جن میں کئی وہ چیزیں ہیں جنہیں یہ لوگ مشکل سمجھتے ہیں، ان کے متعلق بتادیں کہ وہ کون سے کام ہیں جو قرآن و حدیث میں نہیں ہیں لیکن علماء نے مشکل بنا کر نافذ کئے ہوئے ہیں؟
تمہید کے طور پر عرض ہے کہ اسلام صرف کلمہ پڑھ لینے کا نام نہیں ہے بلکہ اسلام عقائد، اخلاقیات، معاملات، حلال و حرام اور آدابِ زندگی وغیرہا جیسے بہت سے شعبوں کے متعلق تفصیلی ہدایات کا مجموعہ ہے۔
عقائد تو ویسے ہی قرآن و حدیث اور اجماعِ اُمت سےثابت ہوتے ہیں، مثلا:مقبول دین صرف اسلام ہے، اسلام کے علاوہ کوئی بھی دین قیامت میں قبول نہیں کیا جائے گا، حضرت محمد صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی تشریف آوری کے بعد صرف ان ہی کی پیروی میں نجات ہے، موسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام بھی ہوتے تو آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ہی کی پیروی کرتے، کفر پر مرنے والے ہمیشہ جہنم میں رہیں گے۔ یہ عقائد علماء نے نہیں بنائے بلکہ قرآن و حدیث میں صاف الفاظ میں لکھے ہیں۔ اگر یہ مشکل لگتے ہیں تو معترضوں کا اصل اعتراض کس پر ہوا؟ ایسے ہی کچھ آزاد خیالوں اور تن پرستوں کی طبع ِ نازک پر عذابِ الٰہی کا تذکرہ گراں گزرتا ہے بلکہ کئی کالم نویس اس کا مذاق اڑاتے اور کہتے ہیں کہ مولوی ڈراتے بہت ہیں تو عرض یہ ہے کہ جہنم کے شدید عذاب،اس کی تفصیلات اور خدا کے غضب کابیان تو قرآن میں جگہ جگہ ہے اور احادیث میں اس سے بھی زیادہ۔ تو ذرا بتائیے کہ آپ کو اصل شکایت کس سے ہے؟
عبادات میں نماز،روزہ،حج،زکوۃ،جہاد،تلاوت،ذکر اللہ وغیرہ شامل ہیں۔ پانچ نمازیں اپنے وقت میں پڑھنا فرض ہیں، گرمی،سردی، دُھوپ، برف، بیماری، پریشانی، شادی، غمی کسی حالت میں معاف نہیں۔ سردیوں کی فجر اور گرمیوں کی ظہر پڑھنی ہی پڑے گی۔ اس کے علاوہ نرم و نازک بستروں کو چھوڑنے، نیند کو قربان کرنے، راتوں کو جاگنے، قیام کرنے، عبادت میں رہنے، سجدے کرنے، بارگاہ ِ الٰہی میں رونے، دعائیں مانگنے، نوافل و تہجد پڑھنے کاذکربھی قرآن ہی میں ہے،کسی مولوی نے اپنی طرف سے بیان نہیں کیا۔
ماہِ رمضان کے روزےفرض ہیں اور اگر اٹھارہ گھنٹے کا روزہ ہو تو بھی گرمیوں کے طویل روزے بہرصورت رکھنے ہی ہوں گے۔بالغ ہوجانے والے لڑکے لڑکیاں خواہ بارہ سال ہی کے کیوں نہ ہوں نیز عورتیں، بوڑھے سب روزہ رکھیں گے سوائے اس کے کہ طاقت نہ ہو۔ یہ احکام بھی قرآن ہی میں ہیں اور پیر، جمعرات، ذوالحجہ کے پہلے نو دن، محرم کے دو دن، رجب شعبان کے دو مہینے، پیر اور جمعرات اور ہر قمری مہینے کی تیرہ، چودہ، پندرہ تاریخوں کےروزے سنت یا مستحب ہونا احادیث میں آیا ہے، کسی مولوی نے نہیں بنایا۔
یونہی اڑھائی فیصد زکوٰۃ دینی فرض ہے یعنی ایک کروڑ روپے ہیں تو اڑھائی لاکھ روپے زکوٰۃ میں دینا ہی ہوں گے۔اس کے علاوہ ماں باپ اور رشتے داروں کی خدمت، یونہی غریبوں، مسکینوں، یتیموں، بیواؤں اور قیدیوں وغیرہ کی مدد کرنے کا حکم بھی قرآن ہی میں لکھا ہے، یونہی مسجدیں بنانے میں اورعلم ِدین سیکھنے،سکھانے میں مشغولیت کی وجہ سے کمائی نہ کرسکنے اورکاروبار وغیرہ سے رُک جانے والے علماء و مبلغین اور مدرسین پر خرچ کرنےکاحکم بھی قرآن ہی میں ہےاور اگر یہاں کوئی شک و شبہ کُلبلائے تو سورۂ بقرہ کی آیت ۲۷۳ میں اِحْصَار فِی سَبِیْلِ اللہ کے الفاظ و معانی و تفسیر سمجھ لیجئے۔ اور دیگر تبلیغِ دین کے کاموں میں خرچ کرنے کا حکم و ترغیب بھی قرآن ہی میں ہے جسے اِنْفَاق فِی سَبِیْلِ اللّٰہِ یعنی راہِ خدا میں خرچ کرنے کے وسیع اور جامع لفظ سے بیان کیا ہے۔
حج کو دیکھ لیں کہ گرمی سردی ہو یا پچھلے زمانے میں اونٹ اور آج کل ہوائی و بحری جہازسے جانا پڑے، فرض ہونے پر جا نا ہی ہوگا۔ روٹین کے سِلے کپڑے اتار کر احرام کی دو چادریں پہننا، بے پناہ رش میں طواف و سعی کرنا، منیٰ و عرفات و مزدلفہ میں تنگی تکلیف اٹھانا، کنکریاں مارنے میں دھکے کھانا، حرم آنے جانے میں مشکلات برداشت کرنا، یہ سب کرنا ہی ہوگا اور یہاں بھی اطلاعا عرض ہے کہ یہ حج مولویوں نے نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں فرض کیا ہے اور آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا؟بقیہ تفصیل اِنْ شَآءَ اللہ اگلے مضمون میں۔
٭…مفتی محمد قاسم عطاری
٭…دارالافتاء اہل سنت عالمی مدنی مرکز فیضان مدینہ ،کراچی
Comments