بچہ پیدا ہونے سے قبل خون آنے پر نماز کا حکم
سوال:کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ایک عورت کے بچہ پیدا ہونے میں ابھی تقریباً دو ہفتے باقی ہیں لیکن اسے ابھی سے ہی خون اور پانی آنا شروع ہوگیا ہے۔ کبھی خون آنے لگ جاتا ہے تو کبھی رُک جاتا ہے، تو کیا اس خون آنے کی صورت میں اس عورت کے لئے نماز معاف ہے یا پھر اسے نماز پڑھنا ہوگی؟ نیز اگر نماز پڑھنا ہوگی تو کیا ہر نماز سے پہلے غسل کرنا بھی ضروری ہوگا؟ یا فقط ناپاک جگہ کو دھو کر وضو کرکے نماز پڑھنا ہی کافی ہوگا؟
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
پوچھی گئی صورت میں اس عورت پر نماز پڑھنا فرض ہے، کیونکہ حاملہ عورت کو دورانِ حمل آنے والا خون، اسی طرح بچہ کی پیدائش کے وقت جبکہ بچہ ابھی آدھے سے زیادہ باہر نہ نکلا ہو آنے والا خون، استحاضہ کے حکم میں ہوتا ہے اور حالتِ استحاضہ میں نماز روزہ معاف نہیں۔البتہ خون آنے کی صورت میں اس عورت پر ہر نماز سے پہلے غسل کرنا ضروری نہیں بلکہ ناپاک جگہ کو دھو کر وضو کرلینا کافی ہے، کیونکہ استحاضہ کا خون نواقضِ وضو میں سے ہےاس خون سےغسل فرض نہیں ہوتا البتہ ایسا خون وضو توڑ دے گا۔البتہ اگر عذرِ شرعی ثابت ہو جائے تو پھر استحاضہ والی عورت کو مزید بھی کئی اعتبار سے رعایت مل جاتی ہے۔بہارِ شریعت میں ہے:”استحاضہ میں نہ نماز معاف ہے نہ روزہ، نہ ایسی عورت سے صحبت حرام۔“ (بہار شریعت،ج1،ص385)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
کیا نفلی اعتکاف ٹوٹنے پر قضا ہے؟
سوال:کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ایک اسلامی بہن ستائیسویں شب سے تین دن کی نیت سے اعتکاف میں بیٹھ گئی ، اس نے اعتکاف کی منت بھی نہیں مانی تھی، بس ایسے ہی نیت کرکے اعتکاف میں بیٹھ گئی، لیکن انتیسویں (29) روزے کو ا سے حیض آیا، تو روزہ ٹوٹنے کی وجہ سے اعتکاف بھی ٹوٹ گیا، اب اس اعتکاف کی قضا کیسے کرنی ہوگی ؟
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
صور تِ مسئولہ میں اعتکاف ختم ہونے کی وجہ سے اس کی قضا لازم نہیں ہوگی، کیونکہ مذکورہ اعتکاف سنتِ مؤکدہ نہیں ہےکہ سنّتِ مؤکدہ آخری دس دن کا ہوتا ہے اس سے کم کا نہیں ، اور اس کی منّت بھی نہیں مانی تویہ نفل ہوا اورمسجدِ بیت میں نفلی اعتکاف ہوسکتاہے لہٰذا یہ اعتکاف نفلی ہے اور نفلی اعتکاف کی قضا لازم نہیں ہوگی۔ ردالمحتار میں عورت کے اعتکاف کےمتعلق ہے:”فلو خرجت منہ ولو الی بیتھا بطل الاعتکاف لو واجبا،ونتھی لو نفلا “یعنی اگر عورت مسجدِ بیت سے نکلے اگرچہ اپنے گھر کی طرف تو اس کا اعتکاف اگر واجب ہوا تو ٹوٹ جائےگا ، اور نفل ہوا تو پورا ہوجائے گا۔(ردالمحتار ،ج03، ص435،مطبوعہ ملتان )صدر الشریعہ مفتی امجد علی اعظمی علیہ الرّحمۃ بہارِ شریعت میں اعتکاف کی قضا کے بارے میں فرماتے ہیں :”اعتکافِ نفل اگر چھوڑ دے تو اس کی قضا نہیں کہ وہیں ختم ہوگیا اور اعتکافِ مسنون کہ رمضان کی پچھلی دس تاریخوں تک کیلیے بیٹھا تھا اسے توڑا تو جس دن توڑا فقط اس ایک دن کی قضا کرے پورے دس دن کی قضا واجب نہیں اور منّت کا اعتکاف توڑا تو اگر کسی معین مہینے کی منّت تھی تو باقی دنوں کی قضا کرے ورنہ اگر عَلَی الْاتِّصال واجب ہوا تھا تو سرے سے اعتکاف کرے اور اگر عَلَی الْاتِّصال واجب نہ تھا تو باقی کا اعتکاف کرے۔(بہار شریعت ،ج1،ص1028)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہٗ اَعْلَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
٭…مفتی ابو محمد علی اصغر عطاری مدنی
٭…دارالافتاء اہل سنت نور العرفان کھارادر ،کراچی
Comments