تربیتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم   (قسط:03)

دنیا میں ہر کام کے کچھ اُصول و ضوابط ہوتے ہیں، اگر کسی کام میں ان اُصولوں کا خیال نہ رکھا جائے تو بعض اوقات فائدے کے بجائے نقصان ہوجاتا ہے جیسا کہ ڈرائیور اگر ٹریفک کے اُصولوں کے مطابق ڈرائیونگ نہ کرے تو اس کی جان بھی جاسکتی ہے، یونہی تربیت کرنے کے بھی کچھ قواعد اور احتیاطیں ہیں اگر ان کا خیال نہ رکھا جائے تو نقصان ہوسکتا ہے، آئیے تربیت کے حوالے سے کچھ احتیاطیں ملاحظہ کرتے ہیں:

تربیت میں لمبی چوڑی گفتگو  سے پرہیز: تربیت میں جن اُمور کا لحاظ رکھا جاتا ہے ان میں سے ایک اہم چیز یہ ہے کہ تربیت کرنے میں بات زیادہ لمبی چوڑی نہ ہو کیونکہ اس سے سامنے والا اُکتاہٹ کا شکار ہوجاتا ہے، مختصر سے مختصر الفاظ میں اپنی بات بیان کرنے کی کوشش کی جائے تاکہ سننے والے کی توجہ قائم رہے اور اس کے ذہن میں بات اچھی طرح بیٹھ جائے۔ شیخِ طریقت، امیرِ اہلِ سنّت دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ کی طرف سے علاقائی دَورے میں نیکی کی دعوت کے لئے جو کلمات ہمیں عطا ہوئے وہ بھی چند لائنوں پر مشتمل،مختصر اور جامع ہیں۔ احادیث میں کثرت سے ایسےجملے ملتے ہیں جو الفاظ کے اعتبار سے بہت مختصر ہیں مگر ان میں مَعانی کا ایک سمندر چُھپا ہوا ہے،یہاں تین احادیثِ مبارَکہ ملاحظہ فرمائیں:

(1)مَاجُمِعَ شَيْءٌ اِلٰى شَيْءٍ اَفْضَلَ مِنْ حِلْمٍ اِلٰی عِلْم یعنی علم کے ساتھ حلم  جمع  ہونے سے بہتر کوئی چیز کسی چیز کے ساتھ جمع نہیں ہوئی۔([1])

(2)اَلْاِقْتِصَادُ فِي النَّفَقَةِ نِصْفُ الْمَعِيشَةِ وَالتَّوَدُّدُ اِلَی النَّاسِ نِصْفُ الْعَقْلِ وَحُسْنُ السُّؤَالِ نِصْفُ الْعِلْمِیعنی خرچ میں اِعتدال آدھی معیشت ہے اور لوگوں سے محبت کرنا آدھی عقل ہے اور اچّھا سُوال آدھا علم ہے۔([2])

(3)مِنْ شَرِّ النَّاسِ مَنْزِلَةً عِنْدَ اللَّهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ عَبْدٌ اَذْهَبَ آخِرَتَهٗ بِدُنْيَا غَيْرِهٖ یعنی قِیامت کے دن اللہ پاک کے نزدیک سب سے بَدتَر مقام اس بندے کا ہوگا جس نے دوسرے کی دنیا کی خاطر اپنی آخرت برباد کرلی۔([3])

ان احادیثِ مبارَکہ سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ہمارے پیارے آقا  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کس قدر مختصر اور جامع الفاظ میں گفتگو فرمایا کرتے تھے۔

موقع محل دیکھ کر تربیت: یونہی ہر وقت تربیت کرتے رہنا بھی اُکتاہٹ بلکہ بعض اَوقات رَدِّعمل (Reaction) کا باعث بھی بن جاتا ہے۔حضرت سیِّدُنا عبدُاﷲ بن مسعود رضی اللہ عنہ ہر جمعرات کو وَعْظ فرماتے تھے۔ آپ سے روزانہ وَعْظ کرنے کی خواہش ظاہر کی گئی تو ارشاد فرمایا:میں تمہیں اُکتاہٹ میں مبتلا کرنے کو ناپسند کرتا ہوں  اور میں اسی طرح تمہاری رعایت کرتا ہوں جس طرح نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اُکتاہٹ کے خَدْشے کے باعث ہماری رعایت کرتے تھے۔([4]) اس لئے تربیت کرنے والے کو چاہئے کہ تربیت کے لئے مناسب موقع کی تلاش میں رہے، جیسے کوئی موقع ملے اس سے بھر پور فائدہ اٹھائے اور تربیت سے غفلت نہ بَرتے چنانچہ

دنیا کی بے وُقعتی: ایک مرتبہ رسولِ بے مثال، بی بی آمِنہ کے لال  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا گزر ایک مردہ بکری کے پاس سے ہوا،تو آپ نے صَحابہ سے پوچھا:کیا تمہیں معلوم ہے کہ یہ بکری (Goat) اپنے مالک کے نزدیک کس قدر حقیر ہے؟ پھر آپ نے ارشاد فرمایا: اُس ذات کی قسم جس کے دستِ قدرت میں میری جان ہے! جس قدر یہ بکری اپنے مالک کے نزدیک حقیر ہے اللّٰہ پاک کے نزدیک دنیا اس سے بھی زیادہ حقیرو ذلیل ہے، اگر دنیا کی قدر و قیمت اللّٰہ پاک کے نزدیک مچھر کے پَر کے برابر بھی ہوتی تو کافر کو اس سے کبھی ایک قطرہ بھی نہ پلاتا۔([5])

جنّت میں سعد کے رُومال زیادہ بہتر ہیں: یونہی جب صحابۂ کرام دنیا کی کسی چیز کی طرف متوجہ ہوتے تو موقع دیکھ کر آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ان کی توجہ کا رُخ کمال حکمتِ عملی سے آخرت کی طرف پھیر دیتے، چنانچہ ایک بار نبیِّ پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی خدمت میں ریشم کا کپڑا بطورِ تحفہ پیش کیا گیا، صحابۂ کرام باری باری اس کپڑے کو اپنے ہاتھ میں لینے لگے اور اس کی خوبصورتی اور ملائمت (Softness) پر تعجب کرنے لگے، حُضور نے پوچھا: کیا تم اس پر تعجب کرتے ہو؟ صَحابہ نے عرض کی: جی ہاں یارسولَ اللہ! آپ نے فرمایا: وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهٖ لَمَنَادِيلُ سَعْدٍ فِي الجَنَّةِ خَيْرٌ مِّنْهَا یعنی اس ذات کی قسم جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے!جنّت میں سعد (بن معاذ) کے رُومال اس سے زیادہ بہتر ہیں۔([6])اندازہ لگائیے کہ نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کس طرح  وقتاً فوقتاً اپنے اصحاب کے ذہن و فکر کی تعمیر کرتے تھے اور ان کی صلاحیتوں کو پروان چڑھاتے تھے اور دنیا کی بے وقعتی کو مختلف مواقع پر اس انداز سے صحابہ کے ذہنوں میں بٹھایا کہ پھر دنیا کی ظاہری چمک دمک اور اس کی رنگینیاں ان کو کبھی اپنی طرف نہ کھینچ سکیں۔

عملی طور پر تربیت: تربیت کرتے وقت اگر محسوس ہو کہ زبانی بات زیادہ مفید اور مؤثر ثابت نہیں ہوسکے گی اور سامنے والے کا دِل پوری طرح مطمئن نہیں ہوگا تو زبانی بتانے کے ساتھ ساتھ عمل سےبھی تربیت کی جائے اور عملی طریقہکرکے دکھایا جائے  چنانچہ نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہ میں ایک شخص حاضر ہوا اور عرض گزار ہوا: یارسولَ اللہ! كَيْفَ الطُّهُورُ یعنی وضو کیسے کیا جاتا ہے؟ آپ نے ایک برتن میں پانی منگوایا (اور اسے پورا وُضو کرکے دکھایا پھر ارشاد فرمایا:) جس نے اس پر کچھ اضافہ کیایا کچھ کمی کی تو اس نے بُرا کیا اور ظلم کیا۔([7])

پیارے  اسلامی بھائیو! جو وُضو کا دُرست طریقہ عملی طور پرسیکھنا چاہتاہے اسے چاہئے کہ دعوتِ اسلامی کےقافلوں میں سفر کرے کیونکہ قافلوں میں یہ کام اچھے طریقے سے سیکھے اور سکھائے جاتے ہیں۔میری عاشقانِ رسول سے فریاد ہے کہ وہ ہر ماہ قافلوں میں ضَرور سفر کریں نیز اپنی اور دوسروں کی تربیت کی خوب خوب کوشش  کریں۔

نوٹ: یہ مضمون نگرانِ شوریٰ کے بیانات اور گفتگو وغیرہ کی مدد سے تیار کرکے انہیں چیک کروانے کے بعد پیش کیا گیا ہے۔

ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ_______________________

٭…دعوتِ اسلامی کی مرکزی مجلسِ شوریٰ کے نگران مولانا محمد عمران عطاری



1   معجمِ اوسط،ج 3،ص362، حدیث:4846

2   شعب الایمان،ج 5،ص254، حديث: 6568

3    ابنِ ماجہ،ج4،ص339، حدیث:3966

4   بخاری،ج1،ص42، حدیث:70

5    ابنِ ماجہ ،4،ص427،حدیث:4110

     6    بخاری،ص4،ص285، حدیث:6640

7     ابو داؤد،ص 1،ص78،حدیث:135


Share