اللّٰہ کے حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی4خُصوصی شانیں
(1)اُمّت کی تعداد سب سے زیادہ: سرکارِ دو عالَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی اُمّت کی تعداد تمام انبیائے کرام علیہم الصَّلٰوۃ والسَّلام کی اُمّتوں سے زیادہ ہے۔([1])
پیارے اسلامی بھائیو! رحمتِ عالَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی اس خُصوصی شان سے متعلّق آپ کے3فرامین مُلاحَظَہ فرمائیے:
(1)اَنَا اَكْثَرُ الْاَنْبِيَاءِ تَبَعًا يَوْمَ الْقِيَامَةِ یعنی قیامت کے دن سب نبیوں (کی اُمّتوں) سے زیادہ میری اُمّت ہوگی۔([2]) معلوم ہوا کہ زیادہ غلام والا ہونا آقا کی عظمت کی دلیل ہے۔([3]) قِیامت کا ذِکْر اس لئے فرمایا کیونکہ اس دن سیّدِ عالَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی اُمّت کی کثرت کا ظُہور ہوگا۔([4])
(2)اہلِ جنّت کی 120صَفیں ہوں گی جن میں سے 80صفیں اس اُمّت کی جبکہ 40صَفیں دیگر تمام اُمّتوں کی ہوں گی۔([5]) صَفیں کتنی بڑی ہیں یہ ہمارے خیال و وَہْم سے وَراء ہے۔ ان ایک سو بیس (120) صفوں میں اَز آدم (علیہ السَّلام) تا روزِ قیامت سارے مومن آجائیں گے۔ ([6])
(3)کسی نبی پر اتنے لوگ ایمان نہیں لائے جتنے مجھ پر ایمان لائے ہیں۔ انبیائے کرام میں سے بعض پر ان کی اُمّت میں سے صرف ایک شخص ایمان لایا۔([7]) یعنی میری اُمّت دوسری اُمّتوں سے زیادہ ہے۔ نوح (علیہ السَّلام) نے ساڑھے نو سو (950) سال تبلیغ فرمائی مگر صرف اَسّی (80) آدمی ایمان لائے، آٹھ آدمی اپنے گھر کے، بہتّر (72) آدمی دوسرے۔ حُضور (صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم) نے تئیس (23) سال تبلیغ فرمائی،دیکھ لو آج تک کیا حال ہے۔ ([8])
تُو وہ پیارا خدا کا ہے کہ پیارے تیرے صدقے میں
ہُوا سب امتوں سے فضل بڑھ کر تیری اُمّت کا([9])
(2)اُمّت میں شامل ہونے کی تمنّا:حضرت سیّدُنا ابراہیم علیہ السَّلام، حضرت سیّدُنا الیاس علیہ السَّلام اور حضرت سیّدُنا موسیٰ علیہ السَّلام سمیت بارہ (12) انبیائے کرام علیہم الصَّلٰوۃ والسَّلام نے رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی اُمّت میں شامل ہونے کی تمنّا کی۔([10])
خود امتی بننے کی مالک سے تمنا کی
موسیٰ نے سُنا جس دم رُتبہ تِری امت کا([11])
اے عاشقانِ رسول! ہم کس قدر خوش نصیب ہیں کہ اللہ پاک نےہمیں اپنے پیارےحبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی اُمّت میں پیدا فرمایا۔ہمیں چاہئےکہ اس نعمت کے شکرانے میں گناہوں سے بچتے ہوئے اپنی زندگی کو نیکیوں میں گزاریں اور دوسرے مسلمانوں تک بھی نیکی کی دعوت پہنچائیں۔
اپنے محبوب کی اللہ نے اُمّت میں کیا
سُنّیو مل کے کرو شکرِ خدا آج کی رات([12])
(3)سُست جانور تیز رفتار ہوجاتا:سرکارِ دو عالَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم جس جانور پر سُوار ہوتے وہ سب سے آگے اور تیز چلتا اگرچہ (پہلے) سُست قدم ہوتا۔([13])
حکایت: حضرت سیّدُنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ مدینۂ منوّرہ کے لوگ (دشمن آنے کی خبر سُن کر) خوف زَدہ ہوگئے۔ رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم حضرت ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کے سُست رفتار اور اَڑْیل گھوڑے پر سوار ہوکر اکیلے ہی تشریف لے گئے۔جب واپس تشریف لائے تو ارشاد فرمایا:ہم نے تمہارے اس گھوڑے کو دریا (کی طرح تیز رفتار )پایا۔اس کے بعد کوئی دوسرا گھوڑا (تیز رفتاری میں) اس گھوڑے کا مقابلہ نہیں کرسکتا تھا۔([14])
(4)عرض سے پہلے صَدَقہ کرنے کا حکم:سرکارِ دو عالَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی خُصوصی شانوں میں سے ایک یہ ہے کہ اللہ پاک نے آپ کے ساتھ سَرگوشی کرنے والے پر سرگوشی سے پہلے صدقہ کرنا لازم فرمایا۔انبیائے کرام علیہم الصَّلٰوۃ و السَّلام میں سے کسی اور کے بارے میں ایسی بات منقول نہیں۔([15])
سیّدِ عالَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہ میں جب اَغْنِیاء (یعنی مالداروں) نے عرض و معروض کا سلسلہ دَراز (یعنی لمبا)کیا اور نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ فُقراء (یعنی غریبوں) کو اپنی عرض پیش کرنے کا موقع کم ملنے لگا تو عرض پیش کرنے والوں کو عرض پیش کرنے سے پہلے صَدَقہ دینے کا حکم دیا گیا۔([16])چنانچہ ارشاد فرمایا گیا:
(یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِذَا نَاجَیْتُمُ الرَّسُوْلَ فَقَدِّمُوْا بَیْنَ یَدَیْ نَجْوٰىكُمْ صَدَقَةًؕ-ذٰلِكَ خَیْرٌ لَّكُمْ وَ اَطْهَرُؕ-فَاِنْ لَّمْ تَجِدُوْا فَاِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ(۱۲)) ترجمۂ کنزُالعِرفان: اے ایمان والو! جب تم رسول سے تنہائی میں کوئی بات عرض کرنا چاہو تو اپنی عرض سے پہلے کچھ صدقہ دے لو، یہ تمہارے لیے بہت بہتر اور زیادہ پاکیزہ ہے، پھر اگر تم (اس پر قدرت) نہ پاؤ تو بیشک اللّٰہ بہت بخشنےوالا، بڑا مہربان ہے۔([17])(اس اٰیت کی مزید وضاحت کےلئے کلک کریں)
خیال رہےکہ یہ پابندی حُضور(صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم)سےخُفْیَہ عرض ومعروض کرنے پر تھی،مجلس شریف میں حاضری، وعظ شریف سننے یا عَلانیہ طور پر کچھ عرض کرنے پر یہ پابندی نہ تھی۔([18])
اس حکم کی حکمت: اس حکمِ الٰہی میں ایک حکمت یہ تھی کہ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے ساتھ سَرگوشی کرنے والے کے دل میں اس سعادت کی عظمت اُجاگر ہوجائے کیونکہ انسان کو جو چیز کوشش اور مَشَقَّت سے حاصل ہو اسے عظیم جانتا ہے جبکہ آسانی سے مل جانے والی چیز کو معمولی سمجھتا ہے۔([19])
منسوخ کردیا گیا: جب اس حکم پر عمل کرنا مسلمانوں کو مشکل محسوس ہوا تو اسے منسوخ کردیا گیا اور ارشاد فرمایا گیا: (ءَاَشْفَقْتُمْ اَنْ تُقَدِّمُوْا بَیْنَ یَدَیْ نَجْوٰىكُمْ صَدَقٰتٍؕ-فَاِذْ لَمْ تَفْعَلُوْا وَ تَابَ اللّٰهُ عَلَیْكُمْ فَاَقِیْمُوا الصَّلٰوةَ وَ اٰتُوا الزَّكٰوةَ وَ اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗؕ-وَ اللّٰهُ خَبِیْرٌۢ بِمَا تَعْمَلُوْنَ۠(۱۳) )ترجمۂ کنزُ العِرفان: کیا تم اس بات سے ڈرگئے کہ تم اپنی عرض سے پہلے کچھ صدقے دو پھر جب تم نے (یہ) نہ کیا اور اللّٰہ نے اپنی مہر بانی سے تم پر رجوع فرمایا توتم نماز قائم رکھو اور زکوٰۃ دو اور اللّٰہ اور اس کے رسول کے فرمانبردار رہو اور اللّٰہ تمہارے کاموں کی خوب خبر رکھنے والا ہے۔([20]) (اس ایت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)
شیرِ خدا حضرت سیّدُنا علیُّ المرتضیٰ کَرَّمَ اللہ وجہَہُ الکریم نے منسوخ ہونے سے قبل اس آیتِ مبارکہ پر عمل کرتے ہوئے دس دِرْہَم خرچ کرکے سیّدِ عالَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے 10 سوالات کئے۔ آپ رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے:قراٰنِ کریم میں ایک ایسی آیت ہے جس پر نہ تو مجھ سے پہلے کسی نے عمل کیا اور نہ ہی کوئی میرے بعد عمل کرے گا، وہ (یہی) آیتِ مُناجات ہے۔([21])
ایسا اعزاز کس کو خدا نے دیا
جیسا بالا تِرا مرتبہ ہوگیا([22])
٭…کاشف شہزاد عطاری مدنی
٭…ماہنامہ فیضان مدینہ کراچی
Comments