سات کے عدد کے بارے میں دلچسپ معلومات (دوسری اور آخری قسط)

سات کا عدد اور فرامینِ بزرگانِ دین

احادیثِ مُبارکہ کی طرح صحابۂ کرام اور علمائے امّت کے کئی فرامین میں سات کے عجائبات کا ذکر ملتاہے جیسا کہ حضرت سیّدُنا عبدُاللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتےہیں: بے شک اللہ پاک طاق ( اکیلا) ہے اورطاق (عدد) کو پسند فرماتا ہے۔ اللہ پاک نے دنیا کے ایّام کو اس طرح بنایاہے کہ وہ سات کے گِرد گھومتے ہیں۔ انسان کو سات چیزوں سےبنایا، ہمارا رِزْق سات چیزوں سے پیداکیا۔ ہمارے اُوپر سات آسمان بنائے اور نیچے سات زمینیں بنائیں۔ سمندر بھی سات بنائے۔ سورۂ فاتحہ کی باربار تلاوت کی جانے والی آیات بھی سات نازل فرمائیں۔ قراٰنِ حکیم میں سات قسم کے (نَسَبی) رشتوں سے نکاح ممنوع و حرام ٹھہرایا۔قراٰنِ کریم میں وراثت کو سات قسم کے وُرَثا ءکے لئے بیان فرمایا۔ ہم سجدہ بھی سات اعضاء پر کرتے ہیں۔حُضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے طوافِ کعبہ کے سات پھیرے لگائے۔ صفا ومَرْوَہ کے درمیان سعی کے سات چکر لگائے اور جمرات کی رَمی بھی سات کنکریوں سے فرمائی۔(حلیۃالاولیاء ،ج1،ص392،رقم:1123،الروض الفائق، ص50)

حضرت سیّدُنا عبدُاللہ  بن عباس رضی اللہ عنہما ہی کا فرمان ہے:(جنّت میں) علمائے کرام، عام مؤمنین سے سات سو درجے بلند ہوں گے اور ہر دو درجوں کے درمیان پانچ سو سال کی مَسافت ہوگی۔(قوتُ القلوب،ج 1،ص241)

صحابیِ رسول حضرت سیِّدُنا ابو دَرْداء رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: جو کوئی ہر روز سات مرتبہ یہ پڑھے : (فَاِنْ تَوَلَّوْا فَقُلْ حَسْبِیَ اللّٰهُ ﱙ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَؕ-عَلَیْهِ تَوَكَّلْتُ وَ هُوَ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِیْمِ۠(۱۲۹))ترجمۂ کنزُ الایمان: پھر اگر وہ منہ پھیریں تو تم فرمادو کہ مجھے اللّٰہ کافی ہے، اس کے سوا کسی کی بندگی نہیں، میں نے اسی پر بھروسا کیا اور وہ بڑےعرش کامالک ہے۔ (پ11،التوبۃ:129) اللّٰہ کریم اسے اُخروی تمام اَہَم اُمور میں کفایت کرے گا۔ (قو ت القلوب،ج1،ص21مفہوماً) (اس اٰیت کی مزید وضاحت کےلئے کلک کریں)

حضرت علّامہ جلالُ الدّین سُیُوطی شافِعی رحمۃ اللہ علیہ نقل فرماتے ہیں کہ صحابۂ کرام علیہمُ الرِّضوان سات روز تک مُردوں کی طرف سے کھانا کھلایا کرتے تھے۔(الحاوی للفتاویٰ،ج2،ص223)

امامِ اہلِ سنّت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: سات کاعدد افضل اعداد میں سے ہے۔(فتاویٰ رضویہ،ج6،ص232) ایک اورمقام پرفرماتےہیں: سات کے عدد کو دفعِ ضَرَر و آفت میں ایک تاثیرِخاص ہے،رسولُ اﷲ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ وسلَّم نے اپنے مرضِ وصال شریف میں فرمایا: مجھ پر سات مَشکوں سَربَستہ کاپانی ڈالو۔ صحیح بخاری شریف میں ہے (حضرت) عائشہ رضی اﷲ تعالٰی عنہا سے (روایت) ہے حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام جب میرے گھرتشریف لائے تو آپ کے مرض میں اضافہ ہوگیا۔ آپ نے فرمایا: مجھ پر ایسے سات مشکیزوں کاپانی بہاؤ کہ جن کے بندھن نہ کھولے گئے ہوں۔(بخاری،ج3،ص155،حدیث:4442،فتاویٰ رضویہ،ج 24،ص183 ملخصاً)

آپ رحمۃ اللہ علیہ مزیدفرماتے ہیں:سات کے عدد میں حکمت اور راز یہ ہے کہ اس کو زہر اور جادو کے ضرر کو دور کرنے میں خاص تاثیر ہے۔ حدیثِ پاک سے ثابت ہے کہ جو کوئی صبح سویرے سات عجوہ کھجوریں کھالے تو اسے اس دن زہر اور جادو سے نقصان نہیں پہنچے گا۔ (بخاری،ج3،ص540،حدیث:5445،فتاویٰ رضویہ،ج 24،ص183ملتقطاً)

گھریلو اِتِّفاق کا عمل سرکارِ اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: سب گھر والوں میں اِتفاق کے لئے بعدنَمازِ جمعہ لاہوری نمک پر ایک ہزار ایک بار یَاوَدُوْدُ پڑھیں، اوّل آخر دس دس بار دُرود شریف اور اُس وقت سے اُس (پڑھے ہوئے) نمک کا برتن زمین پر نہ رکھیں، (ادب سے الماری،میز وغیرہ اُونچی جگہ رکھئے) وہ نمک سات دن گھر کی ہانڈی(یعنی سالن وغیرہ) میں ڈالیں، سب کھائیں، مولیٰ تعالیٰ سب میں اِتفاق پیدا کرےگا۔ ہر جمعہ کوسات دن کے لئے پڑھ لیا کریں۔(فتاویٰ رضویہ،ج26،ص612)

سات کے عدد کے دیگر عجائبات

حُضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی مقدّس اولاد کی تعداد سات ہے۔تین صاحبزادگان اورچار صاحبزادیاں قراٰنِ کریم کی جن سُورتوں کے شروع میں سَبَّحِ ، یُسَبِّحُ ، سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْاَعْلَىۙ(۱) “یا8ہے وہ سورتیں سات ہیں: (سورۂ بنی اسرآءیل، حَدِیْد، حشر، صَف،جُمُعَہ، تَغابُن اور اَعْلٰی) قراٰنِ کریم کی جن سورتوں کے شروع میں حُروفِ مُقَطَّعات میں سے حٰمٓہے وہ بھی سات ہیں:(سورۃُ المؤمن،حٰمٓ السَّجْدَۃ، الشُوریٰ، الزُخْرُف، الدُّخان،الجاثِیۃ اور الاَحْقاف) قراٰنِ کریم کی منزلیں بھی سات ہیں ( پہلی منزل میں تین سورتیں ہیں ، دوسری میں پانچ، تیسری میں سات، چوتھی میں نو، پانچویں میں گیارہ، چھٹی میں 13جبکہ ساتویں منزل میں سورۂ ق سے آخر تک 66 سورتیں ہیں)۔صحابۂ کرام علیہمُ الرِّضوان نے اسے یونہی تقسیم کیا ہوا تھا اور اسی طرح تلاوت کرتے تھے۔ (احیاءالعلوم،ج 1،ص367ملتقطاً) جہنّم کے طَبَقات سات ہیں۔ اللہ پاک ابلیس کے پیرو کاروں کو سات گروہوں میں تقسیم فرمائے گا اور ہر گِروہ جہنّم کے ایک طَبَقہ میں رہے گا، اس کا سبب یہ ہے کہ کُفر اور گناہوں کے مَراتِب چونکہ مختلف ہیں اس لئے جہنّم میں دُخُول کے لئے ان کے دَرجات بھی مختلف ہیں۔ اوریہ بھی کہا گیا ہے کہ ان سات طَبَقات کو انسان کے سات اعضائے بدن کے مطابق بنایا گیا ہے، اعضاء یہ ہیں:آنکھ، کان، زبان، پیٹ، شرمگاہ، ہاتھ اور پاؤں، کیونکہ یہی اَعضاءگناہوں کا مَرکز ہیں،اسی لئے ان کے وارد ہونے کے دروازے بھی سات ہیں۔(حاشیۃ الصاوی علی الجلالین،الحجر،تحت الآیۃ:44،ج 3،ص1043،مکاشفۃ القلوب، ص190)

اللہ پاک ہمارےعِلم وعَمَل میں اضافہ فرمائے۔اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

_______________________

٭…محمد نواز عطاری مدنی   

٭…ماہنامہ فیضان مدینہ کراچی  


Share