فرمانِ باری تعالیٰ ہے:( وَ لَا تُخْزِنِیْ یَوْمَ یُبْعَثُوْنَۙ(۸۷) یَوْمَ لَا یَنْفَعُ مَالٌ وَّ لَا بَنُوْنَۙ(۸۸) اِلَّا مَنْ اَتَى اللّٰهَ بِقَلْبٍ سَلِیْمٍؕ(۸۹))
ترجمہ: اور مجھے اس دن رسوا نہ کرنا جس دن سب اٹھائے جائیں گے، جس دن نہ مال کام آئے گا اور نہ بیٹے مگر وہ جو اللہ کے حضور سلامت دل کے ساتھ حاضر ہو گا۔([1]) (اس آیت کی مزید معلومات کے لئے یہاں کلک کریں )
گزشتہ مضمون میں قلب ِ سلیم اور دیگر اقسام پر گفتگو جاری تھی اور خلاصۂ کلام یہ تھا کہ دل کی باطنی اصلاح پر بدن کی ظاہری اصلاح کا مدار ہے اور دل کی تین حالتیں آپ نے جان لیں کہ ایک سب سے اعلیٰ حالت ہے جس میں دل پاک صاف، نفسانی خواہشات سے دور، محبت ِ الٰہی میں مستغرق اور رضائے الٰہی کا طلب گار ہوتا ہے اور ایک سب سے بدتر حالت ہے کہ دل یادِ خدا سے غافل، نفسانی خواہشات کا شکار، حلال وحرام کی تمیز سے بے پروا اور گناہوں کی آلودگی میں ڈوبا ہوا ہو۔ جبکہ تیسری حالت یہ تھی کہ دل اچھے برے خیالات کے لئے میدانِ جنگ بنا ہوتا ہے۔
اب سوال پیدا ہوتا ہےکہ دل کی اصلاح کیسے کی جائے؟ تو اس کا طریقہ ایک مثال کے ذریعے پیش کیا جاتا ہے۔ دل کی مثال قلعے جیسی ہے جس میں دشمن داخل ہوکر حکومت کرنا چاہتا ہے۔ اس قلعے میں داخل ہونے کے بہت سے راستے ہیں۔
ایک دروازہ حرص ہے۔حرص انسانی مزاج کی بنیادوں میں شامل ہے چنانچہ قرآنِ پاک میں ہے: اوردلوں کو لالچ کے قریب کردیا گیا ہے۔([2]) (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)اور ایک جگہ اس مزاج اور سوچ کی منظر کشی یوں فرمائی: تم فرماؤ،اگر تم لوگ میرے رب کی رحمت کےخزانوں کے مالک ہوتے تو خرچ ہوجانے کے ڈر سے تم انہیں روک رکھتے اورآدمی بڑا کنجوس ہے۔([3]) (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں) حرص کی خصلت و عادت کے برا ہونے اور اس سے جان چھوٹنے کے مشکل ہونے کی وجہ سے فرمایا کہ اس سے نجات پانا بہت بڑی کامیابی ہے، چنانچہ فرمایا:اور جو اپنے نفس کے لالچ سے بچا لیا گیا تو وہی لوگ کامیاب ہیں۔([4]) (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)
حقیقت یہ ہے کہ حرص انسان کو اندھا کردیتی ہے اور زیادہ طلبی کی آگ مزید مال ملنے پر بجھتی نہیں بلکہ اوربھڑکتی ہے۔اورحدیث میں فرمایا:اگر ابنِ آدم کے پاس مال یا سونے کی دو وادیاں ہوں تو وہ ضرور تیسری وادی تلاش کرے گا۔ (قبرکی)مٹی ہی ہے جو ابنِ آدم کے پیٹ کو بھر سکتی ہے۔([5])
حرص کا علمی علاج یہ ہے کہ دنیا کی حرص کو آخرت کی حرص سے بدل دیا جائے لیکن یہ صرف دو جملے بول دینے سے نہیں ہوگا بلکہ بار بار غور و فکر کرنے سے ہوگا۔ یہ طریقۂ علاج قرآنِ مجید کی آگے مذکور آیت سے ماخوذ (لیا گیا)ہے۔اللہ کریم نے فرمایا کہ بیشک نیک لوگ ضرور چین میں ہوں گے، تختوں پر نظارے کر رہے ہوں گے۔ تم ان کے چہروں میں نعمتوں کی تروتازگی پہچان لو گے۔ انہیں صاف ستھری خالص شراب پلائی جائے گی جس پر مہر لگائی ہوئی ہو گی۔ اس کی مہر مشک (کی)ہے اور للچانے والوں کو تو اسی پر للچانا چاہئے۔([6]) (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں) اس آیت میں غور و فکر کا طریقہ یہ ہےکہ جنت کی نعمتوں اور دنیا کی لذتوں کا تقابل کریں مثلاً ایک طرف دنیا کاآرام اور دوسری طرف جنت کا چین، یہاں دنیامیں لکڑی کے بنے چھوٹے چھوٹے تخت اور وہاں سونے چاندی کے بنے اور ہیرے جواہرت سے جَڑے عالیشان تخت، یہاں دنیا کے باغوں کے نظارے اور وہاں جنت کے حسین و دلکش باغات کے مناظر، یہاں کھاپی کر چہروں پر خوشی کے آثار اور وہاں جنت کی دائمی، ابدی ، خوشگوار نعمتوں کے احساس سے چہرے سے چھلکتی خوش کُن تروتازگی، یہاں دنیا کی بےخود کردینے والی ناپاک بدبودارملاوٹی شراب اور وہاں جنت کی لذت و سرور سے معمور صاف، شفاف، نکھری، نتھری خالص شرابِ طہور، یہاں فنا ہونے والی بے وفا، مطلبی حسیناؤں کے نظارے اور وہاں باوفا ، لافانی حوروں کا خیرہ کُن حسن و جمال اور ان سب سے بڑھ کر جنت میں ربِّ کریم کے وجہ ِ کریم کے جلوے۔ سبحٰن اللہ ۔ یہ تقابل ذرا بار بار کریں اور پھرخدا کے اِس فرمان کو دہرائیں کہ للچانے والوں کو تو اسی پر للچانا چاہئے۔ اِنْ شَآءَ اللہ چند بار کی مشق سے دل سے دنیا کی حرص ختم ہوتی نظر آئے گی۔
اور حرص کا عملی علاج یہ ہے کہ جہاں حرص بے موقع اور بےمقصد ہی تنگ کررہی ہو وہاں اس کی خواہش پوری نہ کریں جیسے(۱)پہلے سے بقدرِ کفایت مال موجود ہے اور اچھے طریقے سے گزر بسر ہورہی ہےلیکن دل مزید مال کا حریص ہو تو یہ خواہش ترک کردے۔(۲)اسی طرح حاجت کے مطابق کھا لینے کے بعد بھی نفس لذت کےلئے مزید کھانے کا متمنی ہو تو اس سے رُک جائے۔ (۳)خواب و خیال میں ہر وقت رنگ برنگی گاڑیاں، لذتیں اور سیر سپاٹے گھوم رہے ہوں تو اپنے خیالات کو اچھی چیزوں کی طرف پھیر دے۔ (۴) روزانہ حرص سے متعلق کوئی نہ کوئی چیز چھوڑتا رہے تاکہ نفس اس کا عادی ہوجائے۔
قلب میں دشمن یعنی شیطان کے داخلے کا دوسرا دروازہ مال کی محبت ہے کہ خدا سے غافل کرنے میں اس کا عمل دخل بہت زیادہ ہے۔ اسی لئے قرآنِ پاک میں بھی فرمایا گیا: زیادہ مال جمع کرنے کی طلب نے تمہیں غافل کر دیا یہاں تک کہ تم نے قبروں کا منہ دیکھا۔([7]) (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں) اور اللہ تعالیٰ نے پہلے سے متنبہ فرمادیا: جان لو کہ تمہارے مال اور تمہاری اولاد ایک امتحان ہے۔([8]) (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)اور مال و اولاد کی محبت میں گم ہوکر خدا کی یاد سے غافل ہونے سے بطورِ خاص بچنے کا حکم دیا چنانچہ فرمایا:اے ایمان والو! تمہارے مال اور تمہاری اولاد تمہیں اللہ کے ذکر سے غافل نہ کر دیں۔([9]) (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں) اور بتایا کہ خدا کو وہ بندے بہت پسند ہیں جو مال و تجارت کی مشغولیت کے باوجود خدا کی یادسے غافل نہیں ہوتے،چنانچہ فرمایا: وہ مرد جن کو تجارت اور خرید و فروخت اللہ کے ذکر سے غافل نہیں کرتی۔([10]) (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)
دل میں شیطان کے داخلے کے اس دروازے کو بند کرنے کا علمی طریقہ یہ ہے کہ ”مال کی مذمت“اور”نیکیوں اور سخاوت کی فضیلت“ والی احادیث پر غور وفکر کرےتو اس سے خرچ کرنے کی رغبت پیدا ہو گی اور مال کی محبت کم ہوگی۔ یونہی دوسرا طریقہ یہ ہے کہ موت کو یاد کرے کہ کتنے بچے، جوان، دوست، رشتے دار کس طرح اچانک مر گئے اور اپنا مال دنیا میں چھوڑ کر دل میں حسرتیں لئے دنیا سے چلے گئے۔ چھوڑا ہوا دوسرے لوگ استعمال کریں گے لیکن کمانے کا حساب مجھےدینا پڑے گا۔
اس دروازے کو بند کرنے کا عملی طریقہ یہ ہے کہ نیکی کے کاموں میں مال خرچ کرنے کی عادت بنائے مثلاً (1)مال کو عبادات مثلاً حج وعمرہ میں خرچ کرے (2)صدقۂ جاریہ کے طور پرمسجد و مدرسہ کی تعمیر وترقی پر خرچ کرے (3)فقراء و مساکین اور دیگر مستحقین کو صدقہ کردے (4)اپنے رشتہ داروں اور دیگر دینی بھائیوں کو کچھ نہ کچھ تحفۃً پیش کرتا رہے (5)اپنے ملازمین اور نوکروں پر خرچ کرے (6)کسی کو معین کئے بغیر عام خیرات مثلاً ڈسپنسری یاپانی کی سبیل وغیرہ لگوا دے۔یہ تمام کام اپنے اوپر جبر کرکے اختیار کرے تاکہ یہ اس کی عادت میں شامل ہو سکیں اور اگر ان نیک امور میں خرچ کرنے سے دل میں محتاجی کا خوف ہو تویہ بات ذہن میں رکھے کہ جس رب نے مجھے پیدا کیا ہے وہ رزق بھی دے گا۔یہ طریقے مسلسل اختیار کرے گا تو اِنْ شَآءَ اللہ دل کی حالت بہتر ہوتی جائےگی۔( بقیہ مضمون تیسری قسط میں)
٭…مفتی محمد قاسم عطاری
٭…دارالافتاء اہل سنت عالمی مدنی مرکز فیضان مدینہ ،کراچی
Comments