بچوں کی ضد کا علاج

ماں باپ کے نام

بچوں کی ضد کا علاج

*مولانا حافظ حفیظ الرحمٰن عطّاری مدنی

ماہنامہ فیضانِ مدینہ دسمبر 2024

بچّوں کی ضِد ایک عام مسئلہ ہے جس کی وجہ سے اکثر والدین پریشانی کا شکار رہتے اور اس مسئلہ کے حل کی تلاش میں رہتے ہیں۔یقیناً بچوں کی ضد کا حل تلاش کرنا تربیتِ اولاد کا حصہ ہے لیکن اس کے لئے والدین کو صبر، محبت اور حکمت سے کام لینے کی ضرورت ہے نیز بچوں کی ضد کی وجوہات، نقصانات، نمٹنے کے طریقے اور علاج جاننا بھی ضروری ہے۔ اس مضمون میں ہم بچوں کی ضد، اس کی وجوہات اور اس کے حل کے بارے میں مختصراً گفتگو کریں گے۔ اس سے پہلے یہ ذہن میں رکھنا ضروری ہے کہ بچے، بچے ہی ہوتے ہیں یہ ضد نہ کریں ایسا بہت کم ہی ہوتا ہے۔ امیرِ اہلِ سنّت حضرت علامہ مولانا محمد الیاس عطّار قادری دامت بَرَکَاتُہمُ العالیہسے ضدی بچوں کے حوالے سے سوال ہوا تو آپ نے اس کا جواب دیتے ہوئے ارشاد فرمایا: بچے اگر ضِد،شرارتیں، چھیڑ خانیاں اور مىٹھى مىٹھی باتىں نہ کریں اور نہ بڑوں سے اُلجھیں اور نہ ہی بات بات پر رُوٹھیں تو پھر اُن کے بچے ہونے کا لُطف نہىں آئے گا۔ بچہ اگر مونگا مونگا (یعنی خاموش خاموش) ہو کر گھر کے کسی کونے میں بیٹھا رہے تو پھر گھر والے سوچیں گے کہ شاید اسے نظر لگ گئی ہے یا کسی جِن نے پکڑ لیا ہے اور اَثرات ہو گئے ہیں اس لئے ہمارا بچہ نہ بولتا ہے اور نہ بھاگتا ہے۔ بچوں میں اِس طرح کی صِفات ہوتی ہیں البتہ کسی میں کم اور کسی میں زیادہ پائی جاتی ہیں۔ بچوں کی بعض ضِدیں بے ضَرر(یعنی کسی نقصان کے بغیر) ہوتی ہیں انہیں پورا کر دیا جائے مگر ان کی ہر ضِد کو پورا نہ کیا جائے کیونکہ اگر والدین ان کی ہر ضِد پوری کریں گے تو وہ اس کے عادى ہو جائیں گے اور ان کا یہ ذِہن بن جائے گا کہ اگر ہم شرافت سے بولتے ہیں تو ہمارا کام نہیں ہوتا اور اگر ہم یُوں یُوں کرتے ہیں تو ہمارا کام ہو جاتا ہے۔([i])

وجوہات:*امیرِ اہلِ سنّت دامت بَرَکَاتُہمُ العالیہفرماتے ہیں: بچوں کے مستقل طور پر ضِدی بن جانے کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ والدین شروع سے ہی ان کی ہر ضِد پوری کرتے آرہے ہوتے ہیں تو بچے بڑے ہوکر بھی اِسی عادت میں مبتلا رہتے ہیں۔ شروع شروع میں بچہ بہت پیارا لگتا ہے جو مانگتا ہے اس سے بڑھ کر دِلا دیا جاتا ہے لیکن کچھ بڑا ہونے کے بعد اس کی ہر مانگ پوری نہیں کی جاتی،اِس طرح بچے کے ذہن میں یہ بات بیٹھ جاتی ہے کہ پہلے جو مانگتا تھا مل جاتا تھا لیکن اب میرے مُطالبات پورے نہیں کئے جاتے،یوں وہ ضِد شروع کر دیتا ہے۔([ii])

*والدین یا دیگر رشتہ داروں کی طرف سے ملنے والا بےجا لاڈ پیار بھی بچوں کی ضد کا سبب بن جاتا ہے۔

*والدین ایک بچے کو کوئی چیز دلائیں اور دوسرے کو نہ دلائیں یا پہلے سے مختلف دلائیں تو بچہ ضد کرنے لگتا ہے کہ مجھے کیوں نہیں دلائی! یا مجھے الگ کیوں دلائی؟

*والدین کا بچوں کی بات توجہ سے نہ سننا بھی بچوں کی ضد کا سبب بن جاتا ہے۔

*بچوں کو وقت نہ دینا بچوں کو ضدی بنا سکتا ہے۔

*بعض بچےکوئی ایسی تبدیلی دیکھتے ہیں جو ان کو اچھی نہیں لگتی تو وہ اس احساس کا اظہار کرنے کے لئے ضد کا سہارا لیتے ہیں۔

*احساسِ کمتری اور احساسِ محرومی بھی بچوں کی ضد کا سبب بن سکتا ہے کیونکہ جب بچہ اپنے ہم عمر دیگر بچوں کے پاس کوئی ایسی چیز دیکھتا ہے جو اس کے پاس موجود نہیں ہے تو اس کو حاصل کرنے کے لئے ضد کرتا ہے۔

*بعض اوقات بچے کی نیند پوری نہیں ہوتی جس کی وجہ سے اس کی طبیعت میں چڑچڑا پن اور ضد آجاتی ہے۔

نقصانات: *ایسے بچے جو ضد پوری کروا کر ہی دم لیتے ہیں وہ بہت سی جگہوں پر والدین کے لئے شرمندگی کا باعث بنتے ہیں مثلاًمہمانوں یا میزبانوں کی موجودگی میں یا گھر سے باہر لوگوں کے سامنے وہ کسی بات پر ضد شروع کردے اور بات رونے دھونے یا لوٹ پوٹ ہونے پر آجائے تو یہ صورتِ حال والدین کے لئے انتہائی شرمندگی کا باعث بن جاتی ہے۔

*بچے، بچے ہی ہوتے ہیں۔ بعض اوقات کسی ایسی بات پر ضد کر بیٹھتے ہیں جو شرعاً ناجائز و گناہ ہوتی ہے، ایسی صورتِحال میں والدین بہت زیادہ آزمائش کا شکار ہوجاتے ہیں کہ اگر بچے کی ضد پوری کرتے ہیں تو شریعت کی نافرمانی ہوتی ہے اور نہیں کرتے تو بچہ جان نہیں چھوڑتا۔

*غیر شرعی کاموں پر مشتمل ضد پوری کروا نے والا بچّہ آگے چل کر غیرشرعی اُمور کے اِرْتِکاب میں بے باک (بے خوف) ہوسکتا ہے۔

نمٹنے کے طریقے:*سب سے پہلے والدین کو ضد کی وجوہات پر غور کرکےان کودورکرنا چاہئے۔

*بچے ماحول اور صحبت سے سیکھتے ہیں اس لئے والدین کو چاہئے کہ بچوں کے ماحول اور صحبت پر نظر رکھیں۔

*امیرِ اہلِ سنّت دامت بَرَکَاتُہمُ العالیہفرماتے ہیں: بچے کی ضِد پوری کرنا چھوڑ دیں آہستہ آہستہ اس کی (ضد کی) عادت نکل جائے گی۔ اِس میں بھی یہ نہ ہو کہ ایک دَم سے بچے کو سب کچھ دِلانا چھوڑ دیں بلکہ کبھی کبھی ضِد پوری بھی کردیا کریں ورنہ بچہ باغی اور والدین سے بَدظن ہو جائے گا، اس کے ذہن میں غیر محسوس طور پر یہ بات جم جائے گی کہ میرے ماں باپ مجھ پر ظلم کرتے ہیں۔ ایسے ہی بچے ہوتے ہیں جو بڑے ہوکر کہتے سنائی دیتے ہیں کہ ہمیں ہمارے والدین کا پیار نہیں ملا! بہتری اِسی میں ہے کہ حکمتِ عملی سے اپنے بچوں کی ضِد کی عادت ختم کریں۔یاد رَکھئے! یہ عادت ایک دَم ختم نہیں ہو سکتی۔([iii])

*بچے کی ضد کے مقابلے میں والدین کو سختی نہیں کرنی چاہئے کیونکہ ضد کے مقابلے میں سختی کی جائے تو ضدی پن میں اضافہ ہوتا ہے۔

ضد ختم کرنے کا روحانی علاج:امیرِ اہلِ سنّت دامت بَرَکَاتُہمُ العالیہفرماتے ہیں: بچے اگر غیر واجبی ضِد کریں تو اُن پر اَوّل و آخر دُرُود شریف کے ساتھ سُورَۃُ الفلق اور سُورَۃُ النَّاس ایک ایک بار پڑھ کر روزانہ دَم کر دیا جائے، اِنْ شَآءَ اللہ اُن کی غیر واجبی ضِد کرنے کی عادت نکل جائے گی۔([iv])

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* فارغ التحصیل جامعۃ المدینہ شعبہ ماہنامہ فیضانِ مدینہ کراچی



([i])بچوں کی ضد ختم کرنے کا وظیفہ،ص1

([ii])بچے ضد کیوں کرتے ہیں؟،ص1

([iii])بچے ضد کیوں کرتے ہیں؟،ص2

([iv])بچوں کی ضد ختم کرنے کا وظیفہ،ص2۔


Share

Articles

Comments


Security Code