جب فرعون دریائے نِیل میں غَرْق ہوگیا تو اللہ عَزّوجَلّ نے بنی اِسرائیل کو حکم فرمایا کہ ’’قومِ عَمالِقہ‘‘ سے جنگ کر کے ’’ملکِ شام‘‘کو آزاد کروائیں،چونکہ یہ قوم نہایت ظالِم اور جنگ کی ماہِر تھی، اس لئےاُن چھ لاکھ بنی اِسرائیلیوں نے جنگ سے اِنکار کردیا۔ اِس نافرمانی کی یہ سزا ملی کہ وہ 40 سال تک 27 میل (Miles) کے رقبے پر مشتمل ایک میدان میں بھٹکتے رہے، یہ لوگ سامان اُٹھا کر سارا دن چلنے کے بعد رات میں کسی جگہ ٹھہر جاتےاور جب صبْح ہوتی تو وہیں موجود ہوتے جہاں سے چلے تھے۔ اِس جگہ کو ’’میدانِ تِیْہ‘‘ (یعنی بھٹکتے پھرنے کی جگہ) کہا جاتا ہے۔ حضرتِ سیّدُنا موسیٰ عَلیْہ السّلامبھی اِسی میدان میں تشریف فرماتھے۔میدانِ تِیْہ میں ہونے والی عطائیں٭حضرتِ سیّدُنا موسیٰ عَلیْہ السّلام کی دُعا سے بنی اِسرائیل کے کھانے کے لئے ہفتہ کے دن کے علاوہ روزانہ آسمان سے دو کھانے یعنی ’’مَنّ‘‘ اور ’’سَلْوٰی‘‘ نازل ہوتے۔ ٭’’کوہِ طُور‘‘ کا ایک سفید پتّھر اُن کے پاس تھا، جب پانی کی حاجت ہوتی تو آپ عَلیْہ السّلام اُس پر اپنی ’’جنتی لاٹھی‘‘ مارتے اور بنی اِسرائیل کے 12 قبیلوں کے لئے 12 چشمے جاری ہوجاتے۔ ٭دُھوپ سے بچاؤ کے لئے ایک بہت بڑا سفید پتلا بادَل سارا دن اُن پر سایہ کرتا۔٭اندھیری رات میں میدان کے بیچ میں ایک نورانی سُتون اُترتا جس کی روشنی میں کام کاج کرتے۔ ٭اُن کے بال(Hairs) اور ناخن (Nails) بڑے نہیں ہوتے تھے۔ ٭کپڑے پھٹتے تھےنہ میلے ہوتے تھے۔ ٭پیدائشی بچّوں کے جسم پر قُدرتی لِباس ہوتا جو جِسْم کے ساتھ ساتھ بڑا ہوتا جاتا۔’’مَنّ‘‘و’’سَلْوٰی‘‘کیا تھا؟:’’مَنّ‘‘ ایک میٹھی چیز تھی جو فَجْر کے وَقْت سے سورج نکلنے تک ہر شخص کے لئے تقریبًا 4 کلو اُترتی تھی، جب بنی اِسرائیل یہ میٹھی چیز کھا کھا کر اُکتاگئے تو اُنہوں نے آپ عَلیْہ السّلام کی بارگاہ میں شِکایت کی، جس کے بعد اُن کے لئے ’’سَلْوٰی‘‘ اُتارا گیا، جو ایک بُھنا ہوا چھوٹاپرندہ تھا۔ ’’مَنّ ‘‘و ’’سَلْوٰی‘‘ قبض کرتا تھا نہ دَسْت لاتا تھا، رنگ، خوشبو اور ذائقے میں بے مثال تھا، ہر طبیعت ومِزاج کو مُوافِق آتا تھا۔نافرمانی کی سزاآپ عَلیْہ السّلام کا حکم تھا کہ کھانا روز کا روزکھا لیا جائے، سِوائے جمُعُہ کے کل کے لئے بچا کر نہ رکھا جائے کہ ہفتہ کو ’’مَنّ‘‘و ’’سَلْوٰی‘‘ نازِل نہیں ہوتا تھا، لیکن اُن لوگوں نے کھانا ذخیرہ کرنا شروع کردیا، جس کی نَحُوست یہ ہوئی کہ ذخیرہ کیا ہوا کھانا سڑ گیا اور ’’مَنّ‘‘و’’سَلْوٰی‘‘ اُترنا بھی بند ہوگیا۔(ماخوذ از عجائب القراٰن،ص24۔31۔33،صراط الجنان،ج1،ص128-2،ص414،تفسیربغوی،ج1،ص43،تفسیرقرطبی،ج1،ص331،تفسیر نعیمی،ج1،ص348۔ 352- ج9،ص273۔ 277)
فرمانِ مصطفٰے صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم: اگر بنی اِسرائیل نہ ہوتے تو کبھی کھانا خراب ہوتا نہ گوشت سڑتا۔ (مسلم ، ص 596، حدیث: 3651) کھانے کا خراب ہونا اور گوشت کا سڑنا اُسی دن سے شروع ہوا۔حکایت سے حاصل ہونے والے مدنی پھول:پیارے مَدَنی مُنُّو اور مَدَنی مُنِّیو! ٭انبیائے کِرام عَلَیْہِمُ السَّلَام اپنے اُمّتیوں پر شفیق اور اُن کے خیر خواہ ہوتے ہیں۔ ٭نیک لوگوں کے وسیلے سے اللہ عَزّوجَلّ کی نعمتیں مانگنا، اپنی پریشانی میں اُن سے دعا کروانا اچّھا عمل ہے۔ ٭اللہ عَزّوجَلّ بڑا رحیم و کریم ہےکہ بنی اسرائیل پر دورانِ قید کس قدر رحمتیں عطا فرمائیں۔ ٭نافرمانی کی نَحُوست سے نعمتیں چھن بھی جاتی ہیں۔ ٭گناہ سے انسان کا اپنا ہی نقصان ہوتا ہے۔
Comments