قطبِ مدینہ  کا عشقِ رسول

عشقِ رسول  رَبّ کریم  کی بہت بڑی نعمت اور ایمان کو  کامل کرنے کے لئے اولین شرط ہے ،جسے یہ  نعمت ملی وہ مخلوقِ  خدا کامحبوب بن گیا۔اِنہی عاشقانِ رسول میں سے ایک شیخ ُالعَرِب و العَجَم  خلیفہ ٔ اعلیٰ حضرت مولانا ضیاءُ الدِّین احمد صدیقی قادری مدنیرحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کی ذات ِ گرامی بھی ہے۔ علم  و فضل کا یہ آفتا ب ضیاء کوٹ (سیالکوٹ، پنجاب پاکستان) کے ایک غیر معروف قصبےکلاس والا میں 1294ھ مطابق 1877ء  کو طلوع ہوکر ”قُطبِ مدینہ“ کے منفردلقب سے  مشہور ہوا۔ آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کا سلسلۂ  نسب امیرُ المُؤمِنِیْن حضرت سیّدنا صدیقِ اکبررضی اللہ تعالٰی عنہ سے ملتا ہے۔ آپرحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کے عشقِ رسول کا مختصر تذکِرہ ملاحظہ کیجئے۔ شہرمصطفٰے سےعشق: سیّدی قطبِ مدینہ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ 1327ھ کوبغدادِ مُعَلّٰی سے  مدینۂ منورہ حاضر ہوئے اور تقریباً 75سال آپرحمۃ اللہ تعالٰی علیہ  کویہاں قِیام کا شرف ملا۔(سیدی ضیاء الدین احمد القادری،ج1،ص275، انوارِ قطب مدینہ، ص337ملخصا) آخری عمْر میں  نظر کمزور ہوگئی تھی، ڈاکٹرزنے  علاج کےلئے جدہ  چلنے پراصرار کیا تو ارشاد فرمایا: فقیر آنکھوں کے لئے مدینہ منورہ نہیں چھوڑتا۔(سیدی ضیاء الدین احمدالقادری،ج1،ص523مختصراً)

پَون سو سال تک مدینے میں

تم نے بانٹی ضیا،ضیاء ُالدّین

آلِ مصطفٰےسے عشق:آپرحمۃ اللہ تعالٰی علیہساداتِ کرام کو بغیر کسی تَعَارُف کے پہچان  لیتےاوربے حد ادب  کرتے ہوئے دست بوسی فرماتے۔(سیدی ضیاء الدین احمدالقادری،ج 1،ص531ماخوذا) نعتِ مصطفٰے سے عشق:قطب ِ مدینہرحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کا محبوب مشغلہ ذکرِرسول  تھا،نعتِ رسول  سے  آپ کی  ہر مجلس  مشکبار رہتی، آپرحمۃ اللہ تعالٰی علیہکی بارگاہ میں جب کوئی زائرِ مدینہ حاضر ہوتا تو مہمان نوازی کے بعد فرماتے:”کوئی  نعت شریف پڑھنے والا ہے؟“ اورساتھ  ہی  صَلَّی اللہُ عَلَیْکَ یَارَسُوْلَ اللہِ وَ سَلَّم عَلَیْکَ یَاحَبِیْبَ اللہِکی صدا بلندفرمادیتے۔(انوارِقطب مدینہ،ص 243،سیدی ضیاء الدین احمد القادری،ج1،ص 490ملخصاً)

جام ِعشقِ نبی  پِلا ایسا

 

ہوش میں آؤں نا ضیاءُ الدّین

نام مصطفٰے کاادب: نامِ مصطفٰے کا حددرجہ  ادب فرماتے، مصطفٰے نامی آپ کا   ایک خادم  تھا  اُسے بلانے کےلئے”یاسیّدی مصطفٰے“ کہہ کر پکارتے۔(سیدی ضیاء الدین احمد القادری،ج1،ص534ملخصاً) درِمصطفٰےسےعشق: اگر  کوئی  دولت مند آپرحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کو گھر بلاتا  توفرماتے: میں اپنے کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے دَر پر پڑا ہوں، میرے کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم میرے  لئے کافی ہیں ۔ بیٹھے بٹھائے ٹکڑا دیتے ہیں،بہت اچھا دیتے ہیں، کھاتاہوں اور خوب کھاتا ہوں۔(سیدی ضیاء الدین احمد القادری،ج1،ص505) ادائے مصطفٰے سے عشق:سیّدی قطب ِ مدینہ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ وصال کے آخری اَیّام میں  کچھ تناوُل نہ فرماتے مگر جب یہ  عرض کیا جاتا  کہ”دودھ اور شہد نبیِّ اکرم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو بہت پسند تھا۔“ توفرماتے: اچھا! لاؤ،پھرچند گھونٹ نوش فرما لیتے۔(انوارِ قطبِ مدینہ ،ص275) آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کا وصال  بروزجمعۃُ المبارک4ذوالحجۃ الحرام مطابق 2اکتوبر 1981ء کو ہوااور جنّتُ البقیع  میں  اَہل بیتِ اَطہار کے قُرب میں  آپ کی تدفین  ہوئی۔ (سیّدی قطبِ مدینہ ،ص17ملخصاً)

موت آئے مجھے مدینے میں

 

کردو حق سے دعا ضیاء ُ الدین

حضور سیّدی ضیاءالدین مدنیرحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کی حیات مبارکہ کے بارے میں مزید جاننے کے لئے امیر اہلِ سنّت دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ کارسالہ”سیّدی  قطبِ مدینہ“ پڑھئے۔

 


Share

قطبِ مدینہ  کا عشقِ رسول

دنیا میں انسان کی حیثیت ایک مسافر کی سی ہے جسے یقیناً اپنی منزل کی طرف جانا ہوتا ہے، روزانہ سینکڑوں فوت ہوتے ہیں جن کا کوئی نام لیوا نہیں ہوتا، لیکن کچھ نیکوکار دنیا سے چلے بھی جائیں تو ان کے فلاح وتقویٰ کا اثر ان کی اولاد میں دکھائی دیتا ہے اور سعادت مند اولاد کے ذریعے ان کا تذکرہ باقی رہتا ہے۔ حدیث پاک میں ہے: ”بے شک اللہ تعالٰی آدمی کے نیک ہونے کی وجہ سے اس کی اولاد در اولاد کی بہتری فرمادیتا ہے۔“(در منثور،ج5،ص 422، الکھف،تحت الآیۃ:82)

اَلْوَلَدُ سِرّٔ لِاَبِیْہ  بیٹا باپ کا بھید یا مشابہ ہوتا ہے “ شیخِ طریقت،امیرِ اَہْلِ سنّت، حضرت علامہ مولانا ابو بلال محمد الیاس عطار قادری رضوی دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہکے خوفِ خدا، اتباعِ رسول، اولیائے کرام سے محبت اور شریعت کی پاسداری کو دیکھتے ہوئےیہ اندازہ لگانا کچھ مشکل نہیں  کہ والد گرامی کی زندگی کن  اوصاف سے مزیّن  ہوگی، آئیے آپ دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ کے والدِ گرامی کی زندگی کی چند جھلکیاں ملاحظہ فرمائیں:نام وسکونت: آپ کا نام ”حاجی عبد الرحمٰن بن عبد الرحیم میمن“ تھا۔ اوّلاً ہند کے گاؤں کتیانہ (جونا گڑھ) میں مقیم تھے، مگر 1947ء میں ہجرت کر کے پاکستان آگئے، پہلے زم زم نگر حیدر آباد میں پھر باب المدینہ (کراچی) میں رہائش پذیر رہے۔نکاح اور طلب معاش: آپ باب المدینہ (کراچی) کی ایک فرم میں ملازمت کرتے تھے۔ پھر آپ کا تبادلہ ”کولمبو“ میں موجود اسی فرم کی ایک شاخ میں کردیا گیا تھا۔ آپ کانکاح ایک نیک و پر ہیزگار خاتون سے ہوا۔عادات و تقویٰ: آپ متقی اور پرہیزگار انسان تھے، سنّت کے مطابق داڑھی تھی، اکثر نگاہیں جھکائے چلتے، دولت جمع کرنے کا لالچ نہیں تھا۔آپ نے کولمبو کی عالیشان حَنَفی میمن مسجد کے انتظامات سنبھالے ہوئے تھے اور مسجد کی کافی خدمت بھی کیا کرتےتھے ، امام صاحب کی غیر حاضری میں نمازیں پڑھادیا کرتے تھے۔1979ء میں امیر اہلِ سنّت مُدَّظِلُّہُ الْعَالِی ”کولمبو“ تشریف لے گئے تو وہاں کے لوگوں کو والدصاحب سے بَہُت متأثر پایا۔بیعت: آپ سلسلہ عالیہ قادِریہ میں مرید تھے، غوث پاک رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کے بہت چاہنے والے اور قصیدۂ غوثیہ کے عامل تھے۔سفر حج اور انتقال: سن1370 ہجری میں سفر حج پر روانہ ہوئے،  اس وقت امیر اہلِ سنّت دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ کی عمر ڈیڑھ یا دو برس تھی۔ حج کے دِنوں منٰی شریف میں سخت لُو (یعنی گرم ہوا) چلی جس میں کئی حجاج کرام شہید اور بہت سے لاپتہ ہوگئے۔آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کا بھی ابتداءًکچھ پتا نہ چلا، بالآخر جدہ شریف کے ایک ہسپتال میں سخت علالت کی حالت میں ملے پھراسی کیفیت میں 14 ذو الحجۃ الحرام 1370 ہجری کو اس عالم ناپائیدار سے رخصت ہوگئے۔ اِنَّا لِلّٰهِ وَ اِنَّاۤ اِلَیْهِ رٰجِعُوْنَؕ(۱۵۶)اللہ  عَزَّ  وَجَلَّ  کی امیر اہلِ سنّت اور آپ کے والد گرامی پر رحمت ہو اور ان کے صدقے ہماری بے حساب مغفرت ہو۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم


Share