قضا کی قسمیں(دوسری قسط)

(1) مُبْرمِ حقیقی: یہ وہ قسم ہے کہ جو اللہ عَزَّوَجَلَّ کے علم اورحکم میں اَٹل ہے اور کسی کی دُعا یا کوئی نیک کام کرنے سے تبدیل نہیں ہوتی۔ جیساکہ فرمانِ باری تعالٰی ہے:

(مَا یُبَدَّلُ الْقَوْلُ لَدَیَّ )ترجمۂ کنز الایمان:  میرےیہاں بات بدلتی نہیں۔ (پ26،ق:29)(اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

(2) معلّق شبیہ  بہ مُبْرَم: یہ قِسم تبدیل تو ہوسکتی ہے لیکن اس کی تبدیلی صرف اللہ عَزَّوَجَلَّکے علم میں ہوتی ہے مُقَرَّب فرشتے بھی اس کی تبدیلی سے لا علم ہوتے ہیں، جس کی وجہ سے یہ مُبْرَم کے مُشابہ ہوتی ہے۔ہاں اللہ عَزَّوَجَلَّکے خاص بندوں کی دعا اورالتجا کےسبب تبدیل ہوجاتی ہے۔

ولی کی دعا سے شقی، سعید ہوگیا(حکایت): منقول ہے حضرت مجدد الف ثانیرحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کے بیٹوں  کا ایک استاد تھا،آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے کشف کے ذریعے دیکھا کہ اس کی پیشانی پر شقی (بدبخت ) لکھا ہوا ہے، اس کا تذکرہ اپنے بیٹوں سے کیا، بیٹوں نے  مؤدّبانہ عرض کی: آپ ان کی خوش بختی  کی دعا فرمائیں، آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہنے  ان کے لئے دعا کی تو اللہ عَزَّوَجَلَّنے آپ کی دعاکی برکت سے ان کی شقاوت (بدبختی ) کو سعادت (خوش بختی ) سے  بدل دیا۔(تفسیر مظہری، پ13، الرعد، تحت الایۃ :39)

(3)مُعَلَّق محض: اس میں تبدیلی علمِ الٰہی کے ساتھ ساتھ فرشتوں کے علم اور ان کے صُحُف (رجسٹروں) میں مذکور ہوتی ہے۔ لہٰذا والدین یا اولیا کی دعا یا نیک کام وصدقہ وخیرات کرنے سے ٹل جاتی ہے۔(ماخوذ از بہارِ شریعت،ج1،ص12)

دوسری اور تیسری قسم کاتبدیل ہونا قراٰنِ پاک اور حدیثِ مبارکہ سےثابت ہے جیساکہ فرمانِ باری تعالٰی ہے:

یَمْحُوا اللّٰهُ مَا یَشَآءُ وَ یُثْبِتُ ۚۖ-) ترجمۂ کنز الایمان: اللہ جو چاہے مٹاتااور ثابت کرتاہے۔(پ 13، الرعد: 39)(اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

اسی طرح حدیثِ پاک میں ہے: فَاِنَّ الدُّعَاءَ يَرُدُّ الْقَضَاءَ الْمُبْرَم بیشک دعا قضائے مبرم کو ٹال دیتی ہے۔(الترغیب  فی فضائل الاعمال ، ج1،ص54، حدیث:150) (قضا کی ان تین اقسام کابیان المعتمد المستند اور مکتوبات امام ربانی، ج1،ص123 تا 124،مکتوب نمبر:217میں بھی تفصیل سے کیا گیا ہے۔)

تدبیرکرنا تقدیر کے خلاف نہیں ہے:تقدیر کی ان اقسام کوسمجھ لینے سے اس سوال کہ ”اگر بیماری، تکلیف، بے روزگاری ہماری تقدیر میں لکھ دی گئی ہےتو ہم علاج کیوں کریں؟ یا روزگار کیوں تلاش کریں؟“ کا جواب بھی مل گیا  ہوسکتا ہے کہ تقدیر میں یہ لکھا ہوکہ اگر یہ فُلاں علاج کرے گا تو صحت یاب ہوجائے گا یا اپنے ماں باپ کی خدمت کرے گا تو اس کی تکلیف یا بے روزگاری دور ہوجائے گی لیکن ہمیں اس بات کا عِلْم نہیں، لہٰذا ہمیں تقدیر پر ایمان رکھنے کے ساتھ ساتھ دین ودنیا کی بھلائیاں حاصل کرنے کے لئے  تمام جائز تدابیر اختیار کرنی چاہئیں اور ایک بہترین تدبیر دعا کرنا بھی ہے۔

حضرت ابنِ عمر رضی اللہ تعالٰی عنہما  دعا کیا کرتے تھے: اَللّٰهُمَّ اِنْ كُنْتَ كَتَبْتَنِيْ شَقِيّاً فَامْحُنِيْ وَاكْتُبْنِيْ سَعِيْداً۔ اے اللہ! اگر تو نے مجھے بد بخت لکھ دیا ہے تو اس بات کو مٹا دے اور مجھے خوش بخت لکھ دے۔(شرح اربعين نوویہ،ص31)

(بقیہ اگلے شمارے میں ملاحظہ فرمائیے)


Share

Articles

Comments


Security Code