میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!یہ اسلام کی خوبی ہے کہ اس نے انسانوں کے حقوق کے ساتھ ساتھ جانوروں کے حقوق کا بھی خیال رکھا ہے ۔جس طرح کسی انسان پر ظلم و زیادتی حرام ہے اسی طرح جانوروں پر بھی حرام ہے بلکہ جانوروں پر ظلم کرنا انسان پر ظلم کرنے سے زیادہ بڑا گناہ ہے کہ انسان تو اپنا دکھ درد کسی سے کہہ سکتا ہے مگربے زبان جانور کس سے فریاد کرے! عام طور پر ذوالحجۃ الحرام کے قریب آتے ہی قربانی کے جانوروں کی خریدو فروخت کے لئے مختلف مقامات پر منڈیاں لگائی جاتی ہیں،جس سے خریداروں کو سہولت رہتی ہے لیکن منڈیوں میں لانے، بیچنے اور قربانی کے وقت تک بے زبان جانوروں کو تکلیف دینے کے کئی مناظربھی دیکھنے میں آتے ہیں، مثلاً: (1)دُور دراز علاقوں سے لائے جانے والے جانوروں کو دورانِ سفر مناسب خوراک نہیں دی جاتی۔ (2)چھوٹی گاڑی میں بڑا جانور، یا کم جگہ میں کئی کئی جانور یوں دھکیل دئیے جاتے ہیں کہ وہ تھک جانے کی صورت میں بھی بیٹھ نہیں سکتے۔(3)بہت سے لوگ جانور کو سوار کرتے وقت گاڑی میں ریت یا بھوسہ وغیرہ نہیں ڈالتے جس سے بسا اوقات جانور اپنے ہی گوبر اور پیشاب سے پھسل کر گر جاتے ہیں، بعض اوقات ان کی ٹانگ بھی ٹوٹ جاتی ہے یا پھر زخمی ہوجاتے ہیں۔(4)منڈی میں پہنچنے والے جانوروں کو گاڑی سے اُتارنے یا چڑھانے کے لئے مناسب جگہ کا انتظام نہیں ہوتا تو اپنی آسانی کے لئے گاڑی سے چھلانگ لگوادی جاتی ہے جس سے کئی جانور زخمی ہوجاتے ہیں اور قربانی کے قابل بھی نہیں رہتے۔ (5)منڈی میں خرچہ بچانے کے لئے بھی بےزبان جانوروں کو بھوکا رکھا جاتا ہے، ایک مرتبہ کسی نے اونٹ خریدا تو بیچنے والے نے اس کے کان میں کہا کہ یہ کئی دن سے بھوکا ہے اسے چارہ کھلا دینا۔ (6)منڈی جانے والوں میں تماشہ دیکھنے والوں کی بھی ایک تعدادہوتی ہے جو بیٹھے ہوئے جانور کو ٹھوکر یا چھڑیاں مار کر اٹھاتے، خوامخواہ بھیڑ لگا کر شور مچا کر جانور کو ہراساں (خوفزدہ) کرتے ہیں۔(7)جب جانور منڈی سےخرید کر گھر لایا جاتا ہے تو اُتارتے وقت بچے اور بڑے شوروغوغا کر کے جانور کو پریشان کرتے اور اس کے اُچھلنے کودنے سے لطف اُٹھاتے ہیں۔جس سے بعض اوقات تو جانور ڈر کر بھاگ جاتاہے، کسی کو زخمی کردیتا ہےیا گڑھے وغیرہ میں گر کر اپنی ٹانگ تڑوا بیٹھتا ہے۔ (8)جانور کو گھمانے کے نام پر بچے اور بڑے بلا وجہ اُس کا کان مروڑتے ،دُم گھماتے ،شور مچاتے ہیں جس سے جانور بدکتے اور ڈرتے ہیں۔(9) ذبح شدہ جانور کے ٹھنڈا ہونے سے پہلے ہی پاؤں کاٹنا یا کھال اتارنا شروع کردیتے ہیں یا بکرے کی گردن چٹخادیتے ہیں یا تڑپتی گائے کی گردن کی کھال اُدھیڑ کر چُھری گھونپ کر دل کی رگیں کاٹتے ہیں اور بلا وجہ تکلیف پہنچاتے ہیں۔
جانوروں پر ظلم کرنے والے سنبھل جائیں کہ بروز قیامت اس کا حساب کیونکر دے سکیں گے؟بے زَبان جانوروں کو بِلاوجہ تکلیف دینے والوں کو ڈر جانا چاہئے کہیں مرنے کے بعد عذاب کیلئے یِہی جانور مُسَلَّط نہ کر دیا جائے۔ امام احمد بن حجر مکی شافعی علیہ رحمۃ اللہ القَویفرماتے ہیں: انسان نے ناحق کسی چوپائے کو مارا یا اسے بھوکا پیاسا رکھا یا اس سے طاقت سے زیادہ کام لیا تو قِیامت کے دن اس سے اسی کی مثل بدلہ لیا جائے گا جو اس نے جانور پر ظلم کیایا اسے بھوکا رکھا۔ اس پر درجِ ذَیل حدیث ِ پاک دَلالت کرتی ہے۔چُنانچِہ رَحمت ِ عالَم ،نورِ مُجَسَّم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے جہنَّم میں ایک عورت کو اس حال میں دیکھا کہ وہ لٹکی ہوئی ہے اور ایک بلّی اُس کے چہرے اور سینے کو نوچ رہی ہے اور اسے ویسے ہی عذاب دے رہی ہے جیسے اس(عورت) نے دنیا میں قید کر کے اور بھوکا رکھ کراسے تکلیف دی تھی۔ اس روایت کا حکم تمام جانوروں کے حق میں عام ہے۔(الزواجر عن اقتراف الکبائر،ج2،ص174)
اللہ عَزَّ وَجَلَّ ہمیں انسانوں اور جانوروں دونوں پر ظلم کرنے سے بچائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم
Comments