(اس عنوان کے تحت بزرگانِ دین کے اَشعار کے مطالب ومعانی بیان کرنے کی کو شش ہوگی)
ماہِ ذُوالحجۃ الحرام میں امیر المؤمنین حضرت سیّدنا عثمان غنی رضی اللہ تعالٰی عنہ کی شہادت ہوئی،اس نسبت سے مشہورِ زمانہ سلام ِ رضا ’’مصطفٰے جانِ رحمت پہ لاکھوں سلا م ‘‘سے دو اشعار مع شَرْح پیشِ خدمت ہیں۔
دُرِّ منثورِ قرآں کی سِلکِ بَہی زوجِ دو نورِ عفَّت پہ لاکھوں سلام |
یعنی عثمان صاحبِ قمیصِ ہُدیٰ حُلّہ پوشِ شہادت پہ لاکھوں سلام |
(حدائقِ بخشش،ص312مطبوعہ مکتبۃ المدینہ)
الفاظ و معانی:دُرِّ مَنْثُورِ قرآں:قراٰنِ پاک کے بکھرے ہوئے موتی۔سِلْک ِبَہی:خوبصورت ہار۔زَوجِ دو نُورِ عِفّت:دو عِفّت مآب نُورانی شہزادیوں کے شوہر۔صاحبِ قمیصِ ہُدیٰ: ہدایت کی قمیص والے۔حُلّہ پوشِ شہادت:شہادت کا لباس پہننے والے۔شرح کلامِ رضا:ان دو اشعار میں حضرت سیّدنا عثمانِ غنی رضی اللہ تعالٰی عنہ کی چار خوبیاں بیان کی گئی ہیں:(1)قراٰنِ کریم کو جَمْع کرنا(2)سرکارِ نامدار صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی دو شہزادیوں سے یکے بعد دیگرے نکاح کا شَرف پانا(3)مَسْندِ خِلافت پر مُتَمَکِّن ہونا (یعنی خلیفہ بنایا جانا) (4)شہادت کا مرتبہ پانا۔ ان چاروں خوبیوں کی مختصر تفصیل درجِ ذیل ہے:دُرِّ منثورِ قرآں کی سلکِ بہی:حضرت سیدنا عثمان غنی رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے مبارک دور میں جمعِ قراٰن کے تین کام کئے گئے:(1)حضرت سیدنا صدیقِ اکبر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے دورِ خلافت میں قرآن کریم جو تحریر کیا گیا تھا وہ مختلف صحیفوں (اجزاء)میں تھا ان تمام اجزاءکو ایک مصحف ( کتاب ) میں نقل کیا گیا (2)اُس مُصْحَف کے مختلف نسخے تیار کرکے اسلامی حکومت کے اہم شہروں میں بھیجے گئے (3)شروع اسلام میں قرآن کریم کو اپنے اپنے لہجے کے مطابق پڑھنے کی اجازت تھی، یوں مختلف لوگوں کے پاس مختلف لہجوں کے اعتبار سےلکھےہوئے نسخے موجود تھے ۔ ان مختلف لہجوں والے نسخوں پر تلاوت کرنا جھگڑے کا باعث بن رہاتھا،چنانچہ فتنہ کو ختم کرنے کے لئے آپ نے ایسےتمام نسخے تلف کروادئیے اور اللہ تعالٰی کی جانب سے نازل کردہ ،اصل لغت قریش والےنسخےکو باقی رکھااور اسی کو عام کیاتاکہ تمام امت ایک لُغَت پر جمع ہو جائے، ان وُجوہات کی بنا پرآپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو’’جامعُ القراٰن‘‘ کہا جاتا ہے۔ (فتاویٰ رضویہ،ج26، ص441،452 ملخصا) زَوجِ دو نُورِ عفّت:سرکارِ مدینہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلہٖ وَسَلَّم نے حضرت سیّدنا عثمان غنی رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کانکاح اپنی شہزادی حضرت سیدتنا رُقَیَّہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا سے اور ان کے وصال کے بعدحضرت سیدتنااُمِّ کُلثوم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا سے فرمایا۔ (آپ کے علاوہ)دنیا میں ایسا کوئی(شخص)نہیں جس کے نکاح میں نبی کی دو بیٹیاں آئی ہوں! اس لئے آپ کو ذُوالنُّورَین(یعنی دونُور والا)کہا جاتا ہے۔(مراٰۃ المناجیح،ج8،ص405) صاحبِ قمیصِ ہُدیٰ:فرمانِ مصطفٰے صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہے:اے عثمان! اللّٰہ تعالٰی تمیں ایک قمیص پہنائے گا، اگر لوگ تم سے وہ اُتارنا چاہیں تو تم ان کی وجہ سے اُسے مت اتارنا۔(ترمذی،ج5،ص394،حدیث:3725)یعنی اللّٰہ تعالٰی آپ کو خِلافت عطا فرمائے گا۔ لوگ تم کو معزول کرنا چاہیں گے، تم ان کے کہنے سے خلافت سے دَسْت بَرْدَار نہ ہونا کیونکہ تم حق پر ہوگے وہ باطل پر۔(مراٰۃ المناجیح،ج8،ص402)حُلّہ پوشِ شہادت: 18 ذوالحجۃ الحرام35 سنِ ہجری کوامیر المؤمنین حضرت سیّدنا عثمانِ غنی رضی اللہ تعالٰی عنہ نہایت مظلومیت کے ساتھ شہید کئے گئے۔(کراماتِ عثمانِ غنی،ص3)
Comments