ایک نیک شخص کو شیطان دکھائی دیا تواس سے کہا: میں تجھ سے کچھ پوچھنا چاہتاہوں؟شیطان کہنے لگا: پوچھو! کیاپوچھنا چاہتے ہو؟ نیک شخص نے پوچھا: انسان کو ہلاک وبرباد کرنے میں تمہارے لئے سب سے زیادہ مددگار شے کیاہے؟ ابلیس نے کہا: نشہ ہمارا سب سے کامیاب وار ہے کیونکہ جب کوئی شخص نشے میں ہوتا ہے تو وہ ہم سے بچ نہیں سکتا ہم جو چاہتے ہیں اس سے کرواتے ہیں ہم اُس سے ایسے کھیلتے ہیں جیسے بچے گیند سے کھیلتے ہیں۔( عیون الحکایات،ص400ملخصاً)
میٹھےمیٹھےاسلامی بھائیو!نشے کے ناسور نے ہمارے مُعاشَرے کی ایک تعداد بالخصوص نوجوانوں کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔افسوس کی بات ہے کہ موجودہ دور میں جس طرح آسانی سے پیزا (Pizza) اور برگر دستیاب ہے، اسی طرح نشہ آور چیزیں (مُنَشّیات) بھی لوگوں کی پہنچ میں ہیں۔ نشہ سے منع فرمایا: حضور نبیِّ پاک، صاحبِ لَوْلاکصلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّمنے ہر مُسْکِر و مُفْتر (یعنی نشہ آور اور عقل میں فُتور ڈالنےوالی)چیزسے منع فرمایا ہے۔ (ابوداؤد،ج3،ص461، حدیث :3686) ہر نشہ حرام ہے: حکیم الامت مفتی احمد یارخان علیہ رحمۃ الحنَّانفرماتے ہیں: جوچیز بھی نشہ دے(وہ)پَتلی ہو جیسے شراب (یا)خشک ہو جیسے افیون،بھنگ،چرْس وغیرہ، وہ حرام ہے۔ (مراٰۃ المناجیح،ج5،ص329)نشے کے بڑے بڑے نقصانات: نشہ کسی بھی چیز کا ہونقصان ہی دیتا ہے،چاہے شراب کاہو یا بھنگ، ہیروئن، چرس، افیون وغیرہ کا۔چند نقصانات ملاحظہ ہوں:صحّت کی بربادی: نشے کے عادی شخص کوطرح طرح کی بیماریاں گھیر لیتی ہیں،معدہ،جگر اورگُردے زیادہ متأثر ہوتے ہیں،اسےکھانےکی پرواہ نہیں رہتی، دھیرے دھیرے اس کا جسم کمزور اور کاہل ہوجاتا ہے۔ بالآخر وہ بسترِ مَرَض پر لیٹ جاتا ہے، اس کا مُستقِل علاج نہیں ہوپاتا کیونکہ وہ نشہ چھوڑنے پر تیار نہیں ہوتا،انجامِ کار بقیہ زندگی’’زندہ لاش‘‘ بن کر گزارنے پر مجبور ہوجاتا ہے۔ کمانے کے لائق نہیں رہتا: ابتدا میں چند گھونٹ پینے یا ایک آدھ کش لگانے والے ایک دن ’’نشے کے ناسور‘‘ میں ایسے گرِفتار ہوتے ہیں کہ انہیں مرتے دم تک رہائی نصیب نہیں ہوتی،نشے کی بدولت سُستی اور بے پروائی انسان پر غالب ہوجاتی ہے، وہ تھکن اور غُنودگی کا شکار رہتا ہے، نشہ مل گیا تو اس کے جسم میں کرنٹ دوڑ جاتا ہے نہ ملا تو اس کا جسم ٹوٹنے لگ جاتا ہے، ایسے میں وہ نوکری یا کاروبار کے قابل نہیں رہتا،بِالآخر کوڑی کوڑی کا محتاج ہوجاتا ہے۔ عزت کا جنازہ: نشے باز کی عزّت وغیرت کا جنازہ نکل جاتا ہے،شریف لوگ اس کا اپنے گھر آنا،اس کے پاس بیٹھنا، اسے قرْض دینا،اس کی مالی مدد کرناپسند نہیں کرتے، اپنے بچوں کو اس کے ساتھ اُٹھنے بیٹھنے نہیں دیتے کہ کہیں وہ اُنہیں بھی نشے کا عادی نہ بنا دے۔ اسےمعاشرے میں اچھے الفاظ سے یاد نہیں کیا جاتا۔ گھریلو زندگی کا سکون برباد ہونا :نشے باز کو کسی کے دُکھ سُکھ کی پرواہ نہیں رہتی، اس کی حرَکتوں سے اس کے بیوی بچے، ماں باپ،بہن بھائی بھی تنگ آجاتے ہیں۔نشے باز اپنا نشہ پورا کرنے کے لئے بیوی کا زیور اور بیٹیوں کا جہیز تک بیچ ڈالتے ہیں۔نام نہاد ’’سُکون‘‘ کے مُتَلاشِیوں کو یہ بھی احساس نہیں ہوتا کہ ان کی حرکتوں کا ان کے بیٹے یا بیٹی پر کیا اثر پڑے گا !ایک وقت آتا ہے کہ گھر میں اسے کوئی بھی گھاس نہیں ڈالتا یوں اس کی گھریلوزندگی تباہ ہوجاتی ہے۔سچ تو یہ ہے کہ نشے کا زہر صرف نشے باز کو ہی نہیں اس کے گھرانے کو بھی مار ڈالتا ہے۔عبرتناک خبر: پنجاب پاکستان کے ایک گاؤں میں نشے کے عادی باپ نےاپنی بیوی کونشہ کے لئے بیوی کے والدین سے رقم نہ لانے کی سزا اس طرح دی کہ رات کے اندھیرے میں اپنی تین بیٹیوں کا گلا دبا کر قتل کردیا۔ ملزم نے اپنی بیوی کو بھی ٹوکے کےپےدرپے وارکرکےشد یدزخمی کردیا۔ (نوائے وقت آن لائن) جرائم کا ارتکاب: چوری ، ڈکیتی اورجوئے جیسے جرائم کا اِرتِکاب کرنے والے بارہانشے کے عادی نکلتے ہیں۔بوڑھے ماں باپ یا دیگر عزیز و اقارب ان کی ضمانَتوں کے لئے تھانے کچہریوں کے دھکے کھانے پر مجبور ہوتے ہیں۔(بقیہ اگلے شمارے میں۔۔۔۔۔۔۔۔۔ )
Comments