Book Name:Qutb e Madina Ke Aala Osaf

کوئی مدینۂ منورہ میں فوت ہوتا اور آپ کو اِطلاع دی جاتی کہ حضرت فُلاں کا اِنتقال ہو گیا ہے، ان کو بقیع میں دفن کر دیا گیا ہے۔آپ فورا ہاتھ اٹھاتے اور مرنے والے کے لئے دعا کرتے اور فرماتے اللہ پاک ہمیں بھی ان سے ملا دے۔([1])

غرقِ عشقِ مصطفےٰ، قطبِ مدینہ طیبہ       فیض کا اِک سلسلہ، قطبِ مدینہ طیبہ

محفلِ نعت ان کے ہاں ہر روز ہوتی منعقد  مہتمم ہوتے سدا، قطبِ مدینہ طیبہ

ساکنِ شہر مدینہ، مرکزِ مہر و وَفا                                                              مصدرِ حلم  و حیا، قطبِ مدینہ طیبہ

وضاحت: *حضرت قطبِ مدینہ رَحمۃُ اللہِ عَلَیْہ  کی زندگی، پیارے آقا ، مکی مَدَنی مصطفےٰ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَ آلِہٖ وَ سَلَّم  کے عشق میں ڈوبی ہوئی تھی*آپ کی ذات پاک سے فیض کا دریا بہہ رہا تھا* آپ کے درِ دولت پر سارا سال ہی محفل نعت سجی رہتی تھی *آپ مدینہ پاک کے رہائشی *وعدہ کی پاسداری کرنے والے اور *حلم وحیا کے پیکر تھے۔  

صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب!                                               صَلَّی اللہُ عَلٰی مُحَمَّد

قطبِ مدینہ نے راز پہچان لیا

ایک مرتبہ سیدی قطبِ مدینہ رَحمۃُ اللہِ عَلَیْہ کے ہاں محفلِ میلاد تھی، حیدر آباد (ہند)کے ایک مشہور شاعِر مِرْزا شکور بیگ بھی حاضِر تھے، انہوں نے اپنی ہی لکھی ہوئی ایک نعت شریف پڑھی، اس کے آخری شعر کا مفہوم کچھ یُوں تھا: مرزا میں کچھ خوبی تو ہے، جس کی وجہ سے سرکار صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَ آلِہٖ وَسَلَّم  ہر سال اسے مدینے بُلا لیتے ہیں۔

مرزا صاحِب نے یہ نعت پڑھی، وقت گزر گیا، اب خُدا کی کرنی یُوں ہوئی کہ وہی مرزا شکور صاحِب جو ہر سال مدینے حاضِر ہوتے تھے، اب 2، 3 سال گزر گئے، حاضِری کا


 

 



[1]... سیدی ضیاء الدین احمدالقادری،جلد:1، صفحہ:616۔