Book Name:Qutb e Madina Ke Aala Osaf
دل میں حسرت لئے ہوئے ہیں، اللہ پاک ان کو بھی طاقت نصیب فرمائے۔اٰمِیْن بِجَاہِ خَاتَمِ النَّبِیّٖن صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَ آلِہٖ وَسَلَّم ۔
صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ عَلٰی مُحَمَّد
محمد عارِف قادری ضیائی سیدی قطبِ مدینہ رَحمۃُ اللہِ عَلَیْہ کے مُرِیْد ہیں۔ فرماتے ہیں: 1974ء کی بات ہے، میں نے مدینۂ پاک میں مستقل رہائش اختیار کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ مدینۂ پاک میں کاروبار کا بھی ایک ذریعہ بن گیا۔ بس والِدہ محترمہ سے اِجازت لینی باقی تھی، چنانچہ مدینۂ پاک سے والدہ کو خط لکھا اور اِجازت چاہی مگر والِدہ محترمہ نے اِجازت نہ دی اور فرمایا: پاکستان وَاپس آجاؤ! ساتھ ہی اَمِّی جان نے سیدی قطبِ مدینہ رَحمۃُ اللہِ عَلَیْہ کی خِدْمت میں بھی خط بھیجا، ان سے بھی درخواست کی کہ عارِف کی جُدائی مجھ سے برداشت نہیں ہو گی، مہربانی فرما کر اسے وَاپس بھیج دیجئے!
عارِف قادری صاحِب فرماتے ہیں: ایک دِن، رات کے وقت میں سیدی قطبِ مدینہ رَحمۃُ اللہِ عَلَیْہ کی خِدْمت میں حاضِر ہوا (روزانہ رات کو جو محفلِ میلاد ہوتی تھی، اس میں شرکت کی)، محفل ختم ہونے کے بعد جب سب چلے گئے تو سیدی قطبِ مدینہ رَحمۃُ اللہِ عَلَیْہ نے فرمایا: عارِف بیٹا! آپ کے گھر سے خط آیا، وہ پڑھ لو! یہ کہہ کر آپ نے خط مجھے دِیا، میں نے پڑھ کر چپکے سے رکھ دیا۔ فرمایا: بیٹا! خط پڑھ لیا؟ میں نے کہا: جی پڑھ لیا۔ فرمایا: کیا اِرادہ ہے؟ عرض کیا: میں مدینۂ پاک ہی میں رہنا چاہتا ہوں۔وَالِدہ کو بھی کچھ دِن میں صبر آ ہی جائے گا۔ سیدی قطبِ مدینہ رَحمۃُ اللہِ عَلَیْہ نے فرمایا: بیٹا! والِدہ کی بات مانو! اس میں تمہارے لئے