Book Name:Qutb e Madina Ke Aala Osaf

بَس عاجزی کے ساتھ سَر جھکائے چلتے رہنا ہی اچھا لگتا ہے۔

ہمیں کبھی بھی اُونچا بول نہیں بولنا چاہئے، بس عاجزی کریں، اللہ و رسول کے عَاجز بندے بن کر رہیں، اسی میں عافیت ہے، اسی میں بھلائی ہے، جو اللہ و رسول کے سامنے سَر اُٹھاتا ہے، پِھر وہ کبھی سَر اُٹھانے کے لائق نہیں رہتا۔

باطنی اَسْبَاب پر بھی غور کیا کیجئے!

پیارے اسلامی بھائیو! اس واقعہ میں ایک اَہَم بات جو سیکھنے کی ہے، وہ یہ کہ ہماری *مشکلات *پریشانیوں*اور ناکامیوں کا سبب ہمیشہ ظاہِری ہی ہوں، یہ ضروری نہیں *مشکلات *پریشانیاں*ناکامیاں بعض باطنی اَسْبَاب  سے بھی آتی ہیں۔ ہمارے ہاں عام طَور پر اس طرف  تَوَجُّہ نہیں کی جاتی،آج ہر دوسرا تیسرا آدمی پریشان نظر آتا ہے، پریشانی کی وُجُوہات پوچھو*تو کوئی کہے گا: مہنگائی بہت ہے*کوئی کہے گا: فُلاں کی وجہ سے یُوں ہو گیا*کوئی کہے گا: حکومت اچھی نہیں ہے*کوئی کہے گا: عوام اچھی نہیں ہے۔ ہر ایک کی اپنی اپنی رائے ہے مگر *یہ کوئی غور نہیں کرتا کہ  میں نے فجر کی نماز نہیں پڑھی تھی اس لئے پریشانی آئی ہے*یہ کوئی نہیں سوچتا کہ قرآنِ کریم سے بےرغبتی بڑھ رہی ہے، اس لئے مسائِل ہو رہے ہیں*یہ کوئی نہیں سوچے گا کہ رشتے توڑنا عام ہو رہا ہے*بدکاریاں بڑھ رہی ہیں *بےحیائی عام ہو رہی ہے*مسجدیں وِیران پڑی ہیں، یہ بھی ناکامیوں کے اَسْباب ہیں، یہ بھی بےبرکتی کے اَسْبَاب ہیں، اگر ہم ان باطنی اَسْبَاب پر غور کر لیں اور ان کا حل کرنا شروع کر دیں تو یقین جائیے! ہماری پریشانیاں دُور ہو سکتی ہیں۔ ڈاکٹر اِقْبَال نے کہا تھا:

سبب کچھ اَور ہے، تُو جس کو خُود سمجھتا ہے    زوال بندۂ مومن کا بےزَرِی سے نہیں([1])


 

 



[1]... کلیات اقبال(اردو)، ضربِ کلیم، صفحہ:532۔