Book Name:Imam Hussain Ke 5 Ausaf
کریم کو سمجھتے بھی تھے، اس پر عَمَل بھی کرتے تھے اور دوسروں کو سکھایا بھی کرتے تھے۔
جب امامِ عالی مقام،امام حُسَین رَضِیَ اللہ عنہ کربلا کی طرف سفر کر رہے تھے، ایک شخص کا کہنا ہے: میں نے دیکھا کہ ایک بےآباد علاقے میں خیمے لگے ہوئے ہیں، مجھے حیرانی ہوئی، کسی سے پوچھا: یہ کس کے خیمے ہیں؟ بتانے والے نے بتایا: یہ امام حُسَین رَضِیَ اللہ عنہ ہیں (آپ نے کربلا کی طرف جاتے ہوئے یہاں پڑاؤ کیا ہے)۔ وہ شخص کہتا ہے: میں امام حُسَین رَضِیَ اللہ عنہ سے ملاقات کا شرف پانے کے لئے آگے بڑھا، خیمے کے قریب گیا تو دیکھا: امام عالی مقام امام حُسَین رَضِیَ اللہ عنہ تِلاوت فرما رہے ہیں اور آپ کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے ہیں۔([1])
سُبْحٰنَ اللہ!کیا شان ہے امامِ عالی مقام رَضِیَ اللہ عنہ کی...!! آپ تِلاوت بھی کرتے تھے اور کس شان کے ساتھ قرآن پڑھتے تھے، اس طرح کہ دِل پر رِقّت طاری ہوتی تھی، اللہ پاک کا خوف اور اس کی محبّت دِل پر چھائی ہوتی تھی، زبان سے تِلاوت جاری ہوتی اور آنکھوں سے خوف و محبّت کے سبب آنسو بہہ رہے ہوتے تھے۔
یقیناً قرآنِ کریم کی تِلاوت کرنا، قرآنِ کریم کی تِلاوت سُننا عین سَعَادت بلکہ بہت فضیلت والی نیکی ہے۔ اگر تِلاوت کرتے وقت، تِلاوت سنتے وقت سُرُور کی کیفیت طاری ہو، دِل محبتِ اِلٰہی میں سَر شار ہو کر مچل رہا ہو، خوفِ خُدا سے کپکپی طاری ہو، آنکھوں سے آنسو جاری ہوں، ایسی تِلاوت کی تَو مَا شَآءَ اللہ! کیا ہی شان ہے۔ اللہ پاک اپنے نیک بندوں کے پاک اَوْصاف بیان کرتے ہوئے فرماتا ہے:
اَللّٰهُ نَزَّلَ اَحْسَنَ الْحَدِیْثِ كِتٰبًا مُّتَشَابِهًا مَّثَانِیَ ﳓ تَقْشَعِرُّ مِنْهُ جُلُوْدُ الَّذِیْنَ یَخْشَوْنَ رَبَّهُمْۚ-ثُمَّ تَلِیْنُ جُلُوْدُهُمْ وَ قُلُوْبُهُمْ اِلٰى ذِكْرِ اللّٰهِؕ (پارہ23،سورۃالزمر:23)
تَرْجمۂ کَنْزُالعِرْفان: اللہ نے سب سے اچھی