Book Name:Itifaq Main Barkat Hai
کو ساتھ لے کر حضرت عثمان رَضِیَ اللہُ عنہ کے پاس چلے گئے۔ دونوں نے سلام کیا، انہوں نے جواب دیا۔ حضرت ابوبکر صِدِّیق رَضِیَ اللہُ عنہ نے فرمایا: عثمان! کیا بات ہے، آپ نے اپنے بھائی کے سلام کا جواب نہیں دیا...؟ عرض کیا: میں نے جواب نہیں دیا...!! میں نے تو ایسا کچھ نہیں کیا۔ حضرت عمر رَضِیَ اللہُ عنہ بولے: (میں ابھی تو آپ کے پاس سے گزرا تھا، آپ کو سلام کیا تھا)، خُدا کی قسم! آپ نے جواب نہیں دیا۔ کہا: آپ گزرے ہیں ، میں یہ بھی نہیں جانتا، آپ نے سلام کیا ہے ، مجھے اس کی بھی خبر نہیں۔
ہم کو اپنی خبر نہیں یارو..! تم زمانے کی بات کرتے ہو
حضرت ابوبکر صِدِّیق رَضِیَ اللہُ عنہ مُعَاملہ سمجھ چکے تھے، آپ نے فرمایا: عثمان! شاید آپ کسی سوچ میں گم تھے۔ عرض کیا: جی ہاں! میں ایک گہری سوچ میں کھویا ہوا تھا، بات یہ ہے کہ میرا ایک سُوال ہے ، جو میں نے پیارے آقا، مکی مدنی مصطفےٰ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَ آلِہٖ وَ سَلَّم سے پوچھنا تھا، میں وہ سُوال پوچھ نہیں پایا اور آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَ آلِہٖ وَ سَلَّم دُنیا سے پردہ فرما گئے۔ پوچھا: وہ کیا سُوال ہے؟ عرض کیا: پوچھنا یہ تھا کہ قیامت کے دِن نجات کا دار ومدار کس بات پر ہے۔ حضرت ابوبکرصِدِّیق رَضِیَ اللہُ عنہ نے فرمایا:(عثمان! فِکْر کی بات نہیں ہے) یہ سُوال میں آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَ آلِہٖ وَ سَلَّم سے پُوچھ چُکا ہوں۔
روایت میں ہے: جب حضرت عثمان رَضِیَ اللہُ عنہ نے یہ بات سُنی تو خُوشی سے کھڑے ہو گئے اور کہا: اے ابوبکر! میرے ماں باپ آپ پر قُربان ہوں، آپ ہی اس (مُعَاملے میں ہم سے آگے گزر جانے) کے حقدار ہیں۔اب حضرت ابوبکر صِدِّیق رَضِیَ اللہُ عنہ نے حدیثِ پاک بیان کرتے ہوئے فرمایا: میں نے رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَ آلِہٖ وَ سَلَّم سے پوچھا: مَا نَجَاۃُ