Book Name:Itifaq Main Barkat Hai
غلط فہمی ہو گئی *کسی نے ہمیں دعوت پر نہ بُلایا تو غلط فہمی ہو گئی *عمومًا جس کی نئی نئی شادِی ہو اور وہ کئی دِنوں تک نظر نہ آئے تو غلط فہمی ہو جاتی ہے کہ شادِی کے بعد بدل گیا ہے *کسی کی نوکری لگے، چار پیسے آجائیں تو غلط فہمی ہوتی ہے کہ پیسہ آ گیا، اب بدل گیا ہے۔ یُوں غلط فہمیاں ہوتی رہتی ہیں۔
ہمارے ہاں کیا ہوتا ہے؛ ہم ان غلط فہمیوں کو پالتے ہیں، یہ گویا شیطان کو ایک سِرا مِل جاتا ہے، ایک غلط فہمی ہوئی تو سوچنے لگتے ہیں؛ ہاں! اُس نے فُلاں وقت بھی میرے ساتھ یُوں کیا تھا، فُلاں وقت بھی ایسا ہوا تھا، وغیرہ وغیرہ اِس ایک ذرا سی غلط فہمی کو سوچ سوچ کر ہم بہت بڑا بنا دیتے ہیں بلکہ حالات تو ایسے ہیں کہ ذرا سی غلط فہمی ہو جائے تو گُنَاہوں کا دروازہ کُھل جاتا ہے*کبھی اِس کو بتا*کبھی اُس کو بتا*اِدھر اُدھر بیٹھ کر غیبتیں کی جاتی ہیں، مثلاً دیکھا: فُلاں ایسا ہے، اس نے میرے ساتھ یُوں کیا، فُلاں بدل گیا ہے، فُلاں بہت بےوفا نکلا ہے، وغیرہ وغیرہ۔
یہ بہت غلط انداز ہے، صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ عنہم کا مُبارَک انداز دیکھئے! ذرا سِی غلط فہمی ہوئی، لگا کہ عثمانِ غنی رَضِیَ اللہُ عنہ نے کسی وجہ سے سلام کا جواب نہیں دیا تو فورًا ابوبکر صِدّیق رَضِیَ اللہُ عنہ کو ساتھ لے کر اُن کے پاس پہنچ گئے، بات کر لی، اپنی سوچ اُن کے ساتھ شئیر کر لی، اُنہوں نے وضاحت دے دی، بات ختم ہو گئی۔ ہمیں بھی یہی والا اَنداز اختیار کرنا چاہئے، کسی بات پر غلط فہمی ہونا کوئی بڑی بات نہیں ہے مگر اس غلط فہمی کو دِل میں پال پال کر بدگمانی، بغض اور کینہ بنا لینا بہت بُری بات بلکہ گُنَاہ والا انداز ہے۔
واقعہ بیان کیا جاتا ہےکہ 2 دوست (Friends)تھے، آپس میں بڑی گہری محبّت تھی، ایک مرتبہ یُوں ہوا کہ آفس سے چھٹیاں آ رہی تھیں، دونوں نے مِل کر کہیں جانے کا پروگرام