Muallim e Kainat

Book Name:Muallim e Kainat

حَکَم سُلَمِی رَضِیَ اللہُ عنہ  ۔ اِن کے ساتھ ایک مرتبہ ایک واقعہ پیش آیا تھا تو آپ نے اپنا وہ واقعہ بیان فرمایا، واقعے کا پسِ منظر کچھ یُوں ہے کہ اسلام کے شروع شروع میں نماز کے دوران گفتگو کرنے کی اجازت ہوتی تھی، پِھر اللہ پاک کا حُکم آیا اور نماز کے اندر باتیں کرنے سے منع کر دیا گیا۔

یہ جو نیا حکم تھا، حضرت مُعَاوِیہ بن حَکَم سُلَمِی رَضِیَ اللہُ عنہ کو اِس نئے حُکم کا عِلْم نہیں تھا۔ اب واقعہ یُوں ہوا؛ فرماتے ہیں: ایک دِن میں مسجِدِ نبوی شریف میں حاضِر ہوا، رسولِ ذیشان، مکی مَدَنی سلطان صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَ آلِہٖ وَ سَلَّم  کی اِقْتِداء  میں (یعنی اُن کے پیچھے) نماز پڑھنے کی سَعَادت حاصِل کی، دورانِ نماز ایک شخص کو چھینک آ گئی۔ (چونکہ ان کے ذہن میں وہی پُرانا حکم تھا کہ نماز میں باتیں کر سکتے ہیں، لہٰذا) فرماتے ہیں:اُس شخص کو چھینک آئی تو میں نے کہہ دیا: یَرْحَمُکَ اللہُ!(اللہ پاک تجھ پر رحم فرمائے)۔ بس میرے یہ کہنے کی دَیْر تھی، آس پاس کے صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ عنہم  نے مجھے تیز نگاہوں سے دیکھا۔ میں نے کہا: کیا ہو گیا؟ تم لوگ مجھے تیز نگاہوں سے کیوں دیکھ رہے ہو؟ اب اُنہوں نے اپنا ہاتھ اپنی ران پر مارا، اب میں سمجھ گیا کہ یہ مجھے چُپ کروانا چاہ رہے ہیں۔ چنانچہ میں چُپ ہو گیا۔

فرماتے ہیں: نماز مکمل ہوئی، سلام پھیر دیا گیا، اب کیا ہوا؟ مُعَلِّمِکائنات، فخرِ مَوجُودات  صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَ آلِہٖ وَ سَلَّم  نے مجھے اپنے پاس بُلا لیا...!!

میرے ماں باپ اُن پر قربان ہوں، آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَ آلِہٖ وَ سَلَّم  سے بڑھ کر اچھا اور بہترین مُعَلِّم(سکھانے والا، تربیت فرمانے والا)نہ میں نے پہلے کبھی دیکھا، نہ آپ کے بعد کوئی دیکھا، آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَ آلِہٖ وَ سَلَّم  نے مجھے بُلایا، نہ ڈانٹا، نہ مارا، نہ بُرا بھلا کہا بلکہ بڑی نرمی سے فرمایا: نماز میں باتیں نہیں کرتے، نماز  میں تو اللہ پاک کی تسبیح کرتے ہیں، تکبیر کہتے ہیں اور