Qayamat Ki Nishaniyan

Book Name:Qayamat Ki Nishaniyan

مجھے نیند کیسے آ سکتی ہے؟

سید احمد حَرْب رَحمۃُ اللہِ عَلَیْہ  اللہ پاک کے نیک بندے تھے، آپ ساری رات جاگتے رہتے، عِبَادت کرتے رہتے، بعض دفعہ لوگ اِصْرَار کرتے، یعنی باربار کہتے کہ سَو جائیے! کچھ دَیْر آرام کر لیجئے، آپ فرماتے: جس کیلئے جہنّم دہکائی جا رہی ہو، جنّت سجائی جا رہی ہو مگر وہ نہ جانتا ہو کہ اس کا ٹھکانا کہاں ہے؟ جہنّم میں جانا ہے، یا جنّت ٹھکانا ہے؟ بھلا اس کو نیند کیسے آ سکتی ہے؟ ([1])

اللہ! اللہ! یہ تھے قیامت کو یاد رکھنے والے لوگ...!! ان کی سوچ کیسی تھی، ذِہن کیسا تھا؟ ہر وقت ان کے دِل و دِماغ پر قیامت کی ہولناکیاں اور میدانِ محشر کی دہشت چھائی رہتی تھی، قیامت کے خوف سے راتوں کو نیند تک نہیں آیا کرتی تھی...!! اور اب ہمارا کیا حال ہے؟ کبھی کوئی ڈراؤنا خواب دیکھ لیں، قیامت کے تذکرے پر مبنی بیان وغیرہ سُن لیں، تب قیامت یاد آجائے تو آجائے، ورنہ بس دُنیا کی لذّتوں میں مگن، بس دُنیا ہی دُنیا کمانےمیں مصروف ہیں۔

حبشی غُلام اور فِکْرِ آخرت

حضرت رَبَاح رَحمۃُ اللہِ عَلَیْہ  نے ایک مرتبہ ایک حبشی غُلام خریدا، اسے گھر لے آئے۔ اس غُلام کی عادت بہت نِرالی تھی، یہ نہ خُود رات بھر سوتا تھا، نہ حضرت رَبَاح رَحمۃُ اللہِ عَلَیْہ  کو سونے دیتا تھا۔ ایک مرتبہ جب رات چھا گئی، ہر طرف اندھیرا ہی اندھیرا ہو گیا تو حضرت رَبَاح رَحمۃُ اللہِ عَلَیْہ  نے اس غُلام سے پُوچھا: تم رات کو سوتے کیوں نہیں ہو...؟ غُلام نے دِل ہِلا دینےوالا جواب دیا، کہا: جب رات کا اندھیرا پھیل جاتا ہے تو میں قبر اور جہنّم کی تاریکی کو یاد کرتا ہوں، اس وجہ سے میری نیند اُڑ جاتی ہے، دِل غمگین ہو جاتا ہے، پِھر جنّت


 

 



[1]...   تذکرۃ الاولیاء ،جلد:1، صفحہ:220۔