Book Name:Bardasht Sunnat e Ambiya Hai
ہوں)۔ آپ کی یہ بات سُن کر وہ شخص شرم سے پانی پانی ہو کر واپس چلا گیا۔ ([1])
ویسے اگر ہمارے آج کے ماحول کے لحاظ سے دیکھا جائے تو یہ بھی بڑے کمال کا حِلْم ہے، اتنی برداشت جس کا مظاہرہ حضرت اَحْنَف رَحمۃُ اللہِ عَلَیْہ نے کیا ہے، اس کا 10 فیصد حصّہ بھی ہمیں نصیب ہو جائے تو ہمارے مُعَاشرے میں اَمن قائِم ہو سکتا ہے، گھروں کا ماحول سکون والا ہو سکتا ہے، دِلوں میں محبتیں بڑھ سکتی ہیں مگر جو حیرانی کی بات ہے ... وہ اس سے آگے ہے۔ سنیئے! یہ حضرت اَحْنَف بن قَیْس رَحمۃُ اللہِ عَلَیْہ جن کا اپنا حِلْم اتنا اعلیٰ تھا، آپ سے کسی نے پوچھا: آپ نے یہ حِلْم کہاں سے سیکھا؟ اتنی برداشت آپ میں کیسے آگئی؟ فرمایا: یہ صحابئ رسول حضرت قَیْس بن عاصِم رَضِیَ اللہُ عنہ کی صحبت کا فیضان ہے۔ آپ انتہائی حِلْم والے تھے، ایک مرتبہ میں نے انہیں دیکھا؛ آپ اپنے گھر کے باہَر تشریف فرما تھے، لوگ آپ کے ارد گرد جمع تھے اور آپ لوگوں کے ساتھ گفتگو کر رہے تھے، اچانک کچھ لوگ آپ کے پاس حاضِر ہوئے، اُن کے پاس ایک نوجوان کی لاش تھی (یعنی ایک میّت کو انہوں نے کندھوں پر اُٹھایا ہوا تھا)۔ ساتھ ہی ایک دوسرا نوجوان تھا، جس کے ہاتھ باندھے ہوئے تھے۔ اب برداشت کا عالَم دیکھئے گا۔ حضرت قَیْس بن عاصِم رَضِیَ اللہُ عنہ صحابئ رسول ہیں۔ لوگوں نے آ کر عرض کیا: حُضُور! یہ جو لاش ہمارے پاس ہے، یہ کسی اور کی نہیں بلکہ آپ کے اپنے بیٹے کی ہے اور یہ شخص جس کے ہاتھ باندھے ہوئے ہیں، یہ آپ کا بھتیجا ہے، آپ کے اس بھتیجے نے، آپ کے جوان بیٹے کو قتل کر دیا ہے۔
حضرت اَحْنف رَضِیَ اللہُ عنہ فرماتے ہیں: حضرت قَیْس بن عاصِم رَضِیَ اللہُ عنہ نے جب یہ بات سُنی تو ایسا کمال کا حِلْم تھا، ایسی کمال کی قُوّتِ برداشت تھی، آپ اپنی جگہ سے اُٹھے