Book Name:Bardasht Sunnat e Ambiya Hai
بھی نہیں، جو بات آپ لوگوں کے ساتھ کر رہے تھے (ظاہِر ہے صحابئ رسول ہیں، کوئی حدیثِ پاک سُنا رہے ہوں گے، کوئی دِینی مسئلہ سمجھا رہے ہوں گے تو) آپ نے وہ بات بھی درمیان میں نہیں چھوڑی، پُوری فرمائی۔ پِھر اپنے دوسرے بیٹے کی طرف رُخ کیا، فرمایا: اپنے بھائی کے لئے تجہیز و تکفین کی تیاری کرو! پِھر اپنے بھتیجے کی طرف رُخ کیا(وہ بھتیجا، جس نے آپ کے بیٹے کو قتل کیا تھا، اس سے )فرمایا: اے بھتیجے! تم سے بہت بڑا گُنَاہ ہو گیا ہے (اس سے توبہ کرو!) اور (میں نے تو تمہیں معاف کر دیا، البتہ) مرنے والے کی ماں کو دِیّت دے کر راضِی کر لو...!! حضرت اَحْنف رَضِیَ اللہُ عنہ فرماتے ہیں: اس واقعے نے مجھے حِلْم سکھایا ہے۔ ([1])
سُبْحٰنَ اللہ! یہ ہے حِلْم ...!! اسے کہتے ہیں: برداشت۔ کاش! ہمیں بھی برداشت کرنا آجائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ خَاتَمِ النَّبِیّٖن صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَ آلِہٖ وَ سَلَّم
حِلْم کی تعریف اور وضاحت
حِلْم کا معنی ہے: بُرْد باری، نَرْم دِلی۔ امام غزالی رَحمۃُ اللہِ عَلَیْہ فرماتے ہیں: آدمی کو غُصَّہ آئے اور وہ کوشش کر کے، تکلّف کے ساتھ، نفس کو مَجْبُور کر کے غُصّے کو دَبا دے تو اس عَمَل کو کَظْمُ الْغَیْظ کہا جاتا ہے، یعنی غُصّہ پی لینا، اگر بار بار اسی طرح غُصَّہ پینے کی مَشْق کی جائے، یہاں تک کہ ایسی حالت ہو جائے کہ غُصَّہ آیا ہی نہ کرے اور اگر غُصّہ آئے بھی تو اسے دبانے میں تکلّف سے کام نہ لینا پڑے بلکہ بآسانی غُصَّہ دَب جائے، اس کیفیت کو حِلْم کہا جاتا ہے۔ امام غزالی رَحمۃُ اللہِ عَلَیْہ مزید فرماتے ہیں: غُصَّہ پینے کی نسبت حِلْمزیادہ اَفْضل ہے، حِلْم عقل کے کمال کی دلیل ہے۔([2])