Bardasht Sunnat e Ambiya Hai

Book Name:Bardasht Sunnat e Ambiya Hai

ہونے کا ثبوت دیتے ہیں۔ اس لئے ایسی چھوٹی چھوٹی باتوں پر صبر کرنا چاہئے۔ اگر ہم نظر تقدیر پر رکھیں گے، اگر یہ سوچ بنائیں گے کہ اللہ پاک کا ارادہ ہوا، تبھی یہ تکلیف پہنچی، اگر اللہ پاک نہ چاہتا تو ہر گز ہر گز مجھے تکلیف نہیں پہنچ سکتی تھی تو اس کی برکت سے اِنْ شَآءَ اللہُ الْکَرِیْم! برداشت کرنا بھی آسان ہو جائے گا اور ہم ثواب کے حقدار بھی بن پائیں گے۔

قُوّتِ برداشت کی انوکھی مِثَال

پیارے اسلامی بھائیو! یہ جو مثالیں میں نے عرض کیں اور عمومًا ہمارے ہاں جن پر بڑے بڑے جھگڑے ہو جاتے ہیں، یہ تو بہت معمولی باتیں ہیں، حقیقت میں حِلْم کسے کہتے ہیں؟ اَصْل میں برداشت کس چیز کا نام ہے؟ آئیے!میں آپ کو ایک خوبصُورت واقعہ سُناتا ہوں۔ حضرت اَحْنَفْ بن قَیْس رَضِیَ اللہُ عنہ تابعی بزرگ ہیں، یعنی وہ خوش نصیب ہیں جنہوں نے صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ عنہم کی صحبت کا فیض پایا ہے۔ آپ حِلْم میں بڑے مشہور تھے، بہت ہی حِلْم والے تھے۔ ایک مرتبہ آپ کہیں سے گزر رہے تھے تو کسی نے آپ کو گالی دِی۔

اب ہمارے ہاں تو ایک گالی کے جواب میں جب تک 10 گالیاں نہ دے لی جائیں، لوگوں کو سکون نہیں ہوتا مگر یہ تابعی تھے، نیک بندے تھے، کسی نے گالی دِی، آپ نے اس کی طرف تَوَجُّہ ہی نہیں کی، اپنے رستے چلتے رہے۔ وہ گالی دینے والا جو شخص تھا، وہ پیچھے پیچھے چلنا شروع ہو گیا، آپ آگے آگے چل رہے ہیں، وہ گالیاں دیتا ہوا، پیچھے پیچھے چل رہا ہے۔ آپ اس کی گالیاں سُنتے گئے، خاموشی کے ساتھ چلتے گئے، جب اپنے قبیلے کے قریب پہنچے تو رُک گئے۔ اُس شخص کی طرف چہرہ کیا، فرمایا: اگر تمہارے دِل میں کچھ باقی ہے تو ابھی کہہ لو کیونکہ میرے قبیلے میں میرے چاہنے والے اگر تمہاری باتیں سنیں گے تو خطرہ ہے کہ تمہیں تکلیف نہ پہنچا دیں (لہٰذا جتنی گالیاں دینا چاہتے ہو، یہیں کھڑے ہو کر دے لو، میں سُن رہا