Bachon Ki Tarbiyat Kaise Karen?

Book Name:Bachon Ki Tarbiyat Kaise Karen?

اللہ پاک کی پناہ...!! یہ انتہائی ظُلْم ہے۔ اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے:

فَلَا تَقُلْ لَّهُمَاۤ اُفٍّ وَّ لَا تَنْهَرْهُمَا (پارہ:15، سورۂ بنی اسرائیل:23)

تَرْجمۂ کَنْزُالعِرْفان:تو اُن سے اُف تک نہ کہنا اور انہیں نہ جھڑکنا۔

اللہُ اَکْبَر! والدین کے سامنے اُفّ تک بولنے سے منع کیا گیا ہے تو سوچئے! ان کو ستانے، دِل دُکھانے، ان کے سامنے اُونچی آواز  سے بولنے، گالیاں دینے، مارنے وغیرہ کا کیا حکم ہو گا...!!

غرض والدین کے حُقُوق بہت زیادہ ہیں، اتنے ہیں کہ آدمی پُورے نہیں کر سکتا، حدیثوں میں بتایا گیا: والدین آدمی کی جنّت بھی ہیں، دوزخ بھی ہیں، جو ان کی خِدْمت کرے، جنتی ہے، جو نافرمانی کرے جہنمی ہے*ماں کے قدموں تلے جنّت ہے*باپ جنّت کی چوکھٹ ہے*والدین کی ناراضی میں اللہ پاک کی ناراضی ہے*والدین کی رِضا میں اللہ پاک کی رِضا ہے*جو والدین کا نافرمان ہو، اس کی کوئی عِبَادت قبول نہیں ہوتی۔  یہ والدین کے حقوق ہیں بلکہ یہ تو کچھ بھی نہیں، اعلیٰ حضرت اِمامِ اہلسنّت اِمام احمد رضا خان رَحمۃُ اللہِ عَلَیْہ سے پوچھا گیا: والدین کے کتنے حقوق ہیں؟ فرمایا: اتنے کہ ادا نہیں ہو سکتے، یہاں تک کہ اگر والدین کا انتقال ہو، بیٹا اگر کر سکتا ہو تو انہیں دوبارہ زندہ کرے، یہ بھی حق ہے۔ ([1])

اَوْلاد کے حقوق پہلے،والدین کے بعد میں

پیارے اسلامی بھائیو! یہ سب کچھ اپنی جگہ بالکل درست ہے مگر میں یہاں جس طرف تَوَجُّہ دِلانا چاہتا ہوں، وہ یہ کہ  والدین غورکریں* کیا ہم اَوْلاد کے حقوق ادا کر رہے ہیں؟پہلی ذِمَّہ داری والدین کی ہے، اَوْلاد کی ذِمَّہ داری بعد میں شروع ہوتی ہے*بچہ پیدا


 

 



[1]...فتاویٰ رضویہ، جلد:24، صفحہ:370 بتصرف۔