Book Name:Bachon Ki Tarbiyat Kaise Karen?
ہوا، والدین کی ذِمَّہ داری شروع ہوگئی*اب بچہ بڑا ہو گا، بالغ ہو گا، تب اس کی ذِمَّہ داریاں شروع ہوں گی۔ پتا چلا؛ پہلے والدین کی ذِمَّہ داری ہے، اسی لئے حضرت فاروقِ اعظم رَضِیَ اللہُ عنہنے نافرمان بیٹے کے والِد سے فرمایا: پہلے نافرمانی تم نے کی کہ اس کی اچھی تربیت نہیں کی، تمہارے بیٹے نے بعد میں کی ہے۔
اللہ پاک قرآنِ کریم میں فرماتا ہے:
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قُوْۤا اَنْفُسَكُمْ وَ اَهْلِیْكُمْ نَارًا وَّ قُوْدُهَا النَّاسُ وَ الْحِجَارَةُ (پارہ:28، سورۂ تحریم:6)
تَرْجمۂ کَنْزُالعِرْفان: اے ایمان والو!اپنی جانوں اور اپنے گھر والوں کواس آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن آدمی اور پتھر ہیں۔
یہ حکم والِدین کو دیا گیا ہے، جیسے ہی بچہ پیدا ہوا، صاحِبِ اَوْلاد ہوئے، یہ حکم آپ کی طرف مُتَوَجِّہ ہو گیا، اب غور کرنے کی بات ہے کہ کیا ہم نے یہ حکمِ قرآنی مانا؟کیا ہم اپنی اَوْلاد کی اچھی تربیت کر رہے ہیں...؟ *اگر بچپن میں اُن کی تربیت ہی اچھی نہ کی گئی *بچے کی عادات نہ سَنْواری گئیں*اسے قرآن نہ پڑھایا گیا*اسے حلال حرام کی تعلیم نہ دِلوائی گئی*بچہ اُٹھتا بیٹھتا کہاں ہے؟ *اس کے دوست کیسے ہیں؟ *یہ جہاں پڑھتا ہے، وہ ادارہ کیسا ہے؟ *نصاب کیسا ہے؟ *گھر میں اس کے رویے کیسے ہیں؟ *باہَر والوں کے ساتھ رویے کیسے ہیں؟ ان ساری باتوں پر اگر تَوَجُّہ ہی نہ دِی گئی تو بتائیے! بڑا ہو کر یہ ماں باپ کا فرمانبردار بنے گا کیسے...؟ اس لئے ہم سب کو چاہئے کہ اپنی اَوْلاد کی اچھی تربیت پر بھرپُور تَوَجُّہ دیں۔