Book Name:Qaum e Samood Kyun Halak Hui
بُرائی کو اچھا سمجھنا بھی بُرا ہے
یہ غیر مسلموں کا وَصْف ہے کہ وہ اپنے بُرے کاموں کو اچھا سمجھ رہے ہوتے ہیں۔ اللہ پاک قرآنِ کریم میں فرماتا ہے:
زُیِّنَ لَهُمْ سُوْٓءُ اَعْمَالِهِمْؕ- (پارہ:10،سورۂ توبہ:37)
تَرْجمۂ کَنْزُالعِرْفان: ان کےبُرے کام ان کے لئے خوشنما بنا دئیے گئے۔
حضرت عبد اللہ بن مسعود رَضِیَ اللہُ عنہ سے روایت ہے، اللہ پاک کے آخری نبی، رسولِ ہاشمی صلّی اللہ ُ عَلَیْہِ وَ آلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا: بنی اسرائیل میں جو سب سے پہلا نقصان آیا، وہ یہ تھا کہ ایک شخص دوسرے سے ملتا اور اسے کسی گُنَاہ میں دیکھ کر اسے بُرائی سے منع کرتا، اگلے دِن دوبارہ اسے گُنَاہ کرتے دیکھتا تو اس کے ساتھ اپنے تعلقات، کھانے پینے اور میل جول کی وجہ سے اُسے منع نہ کرتا، جب (عام طَور پر) انہوں نے ایسا کیا تو اللہ پاک نے اُن کے دِل ایک دوسرے کے ساتھ خلط کر دئیے (یعنی نافرمانوں کی نحوست سے فرمانبرداروں کے دِل بھی ویسے ہی ہو گئے)۔ ([1])
اَلْاَمَان وَالْحَفِیْظ! غور فرمائیے! جب ہم بُرائی کو بُرا سمجھ ہی نہیں رہے ہوں گے، اس سے نفرت اور بیزاری ہی نہیں رکھیں گے تو اس سے منع کیسے کریں گے؟ جب ہم بُرائی سے منع نہیں کریں گے تو نتیجۃً وہ بُرائی پھیلتی چلی جائے گی، آخر ایک وقت آئے گا کہ اسی بُرائی کو اچھائی سمجھ لیا جائے گا۔ یُوں معاشرے میں بُرائیاں عام ہو جائیں گی اور مُعَاشرہ تباہ و برباد ہو کر رہ جائے گا۔