حضرت سیدنا الیاس علیہ السّلام  (چوتھی اور آخری قسط)

انبیائے کرام کے واقعات

حضرت سیدنا الیاس علیہ السّلام(چوتھی اور آخری قسط)

*مولانا عدنان احمد عطاری مدنی

ماہنامہ اگست 2024

بادشاہ کے نام پیغام: لوگوں نےبادشاہ کو کہا: تو نے (حضرت) الیاس کو قتل نہیں کیا تھا اس کی وجہ سے تم پر بعل ناراض ہوگیا ہے، بادشاہ نے جواب دیا: میں اپنے خدا کو خوش کروں گا۔ پھر بادشاہ نے اپنے 400 قاصدوں کو دوسرے باطل معبودوں کے پاس بھیجا کہ وہاں جاکر بیٹےکی صحت یابی کی سفارش کریں، جب یہ لوگ اس پہاڑ کے قریب پہنچےجہاں حضرت الیاس علیہ السَّلام رہتے تھےتو اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ کو پہاڑ سے اترنے کا حکم ہوا، آپ پہاڑ سے نیچے اتر آئے پھر جب ان لوگوں سے ملے تو فرمایا: مجھے اللہ نے بھیجا ہے اے لوگو! غور سے اللہ کریم کا پیغام سننا اور اپنے بادشاہ تک اس پیغام کو پہنچادینا اللہ کریم ارشاد فرماتا ہے ”کیا تو نہیں جانتا کہ میں ہی بنی اسرائیل کا ایک خدا ہوں جس نے انہیں پیدا کیا انہیں رزق دیا میں ہی ان کو زندگی اور موت دیتا ہوں، تیری کم علمی اور جہالت نےتجھے اس بات پر ابھارا ہےکہ تو میرے ساتھ کسی اور کو شریک ٹھہرائے میں تیرے بیٹے کو ضرور موت دوں گا تاکہ تو جان لے کہ میرے علاوہ کوئی بھی کسی چیز کا مالک نہیں ہے “ اللہ کا یہ پیغام سن کر آپ علیہ السَّلام کا رعب و دبدبہ ان کے دلوں میں بیٹھ گیا آخر کار بادشاہ کے پاس واپس پہنچے اور اسے بتایا: حضرت الیاس پہاڑ سے اتر کر نیچے آئے تھے قد لمبا اور بدن دبلا پتلا تھاکھال کھردری اور خشک تھی  ([i]) اون کا جبہ پہنا ہوا تھاجبکہ ایک چادر سینے پر لٹکی ہوئی تھی ان کا رعب و دبدبہ ہمارے دلوں پرچھا گیا ہماری زبانیں گنگ ہوگئیں وہ اکیلے تھے اور ہم بہت زیادہ لیکن پھر بھی ہم نہ ان سے بات کرنے پر قادر ہوسکے اور نہ ان سے نظر ملا پائے پھر حضرت الیاس کا پیغام بادشاہ کو سنادیا۔

بادشاہ کا مکر وفریب: بادشاہ کہنےلگا: اب کوئی مکرو فریب کرکے حضرت الیاس کو قید کرنا پڑےگا،لہٰذا بادشاہ نے 50 انتہائی طاقت ور لوگوں کو منتخب کیا اور مکرو فریب سکھاکر بھیج دیا، یہ لوگ اس پہاڑ پر پہنچے اور سب الگ الگ ہوگئے پھر حضرت الیاس کو پکارنے لگے:اے اللہ کے نبی! ہمارے سامنے آجائیے ہم اور ہمارا بادشاہ آپ پر ایمان لاچکا ہےقوم آپ کو سلام کہہ رہی ہے آپ کےرب کا پیغام ہم تک پہنچ چکا ہے، ہم آپ کی نیکی کی دعوت کو قبول کرتے ہیں ہمارے پاس تشریف لائیے آپ رب کے رسول اور نبی ہیں ہمارے پاس آکر ہمیں اچھی باتوں کا حکم دیجئے ہم آ پ کی فرمانبرداری کریں گے آپ جن باتوں سے روکیں گے ہم رُک جائیں گے۔ یہ لوگ اسی طرح مکرو فریب کرتے ہوئے حضرت الیاس کو تلاش کرتے اور پکارتے رہے۔

فریب کا پردہ چاک ہوا: آپ علیہ السَّلام نے ان لوگوں کی باتیں سنی تو آپ کے دل میں ان لوگوں کے ایمان لانے کی امید پیدا ہوگئی، آپ نے اللہ سے دعاکی: اے اللہ! اگر یہ لوگ سچے ہیں تو تُو مجھے اجازت عطا فرما کہ میں ان کے سامنے آجاؤں، اگر یہ جھوٹے ہیں تو مجھے ان سے چھٹکارا دے اور ان پر آگ پھینک کر انہیں جلا دے۔آپ کی دعا قبول ہوئی اور ایک آگ ان سب پر نازل ہوئی جس نے انہیں جلاکر راکھ بنادیا۔ ([ii])

بادشاہ کی دوسری چال: بادشاہ کو ان سب کے مرجانے کی خبر پہنچ گئی لیکن اپنی ہٹ دھرمی سے باز نہ آیا اور مکرو فریب کی دوسری چال چلی جس سےآپ علیہ السَّلام کو اپنی قید میں لاسکے، بادشاہ نے پھر سے 50 زیادہ طاقتور اور مضبوط افراد لئے اور انہیں فریب کا طریقہ سمجھاکر پہاڑ کی جانب بھیج دیا، یہ لوگ پہاڑ کے قریب پہنچ کر بکھر گئے اور آپ کو تلاش کرتے ہوئے کہنےلگے:اے اللہ کے نبی! ہم اللہ کی پناہ چاہتے ہیں ہم پہلے والے لوگ نہیں ہیں پہلے والے تو منافق تھے وہ ہم سے اور آپ سے حسد رکھتے تھے ہم ان کے بارے میں نہیں جانتے تھے اگر ہمیں ان کے بارے میں معلومات ہوتیں تو ہم انہیں خود اپنے ہاتھوں سے قتل کردیتے اللہ نے ان کو ان کی بری نیتوں کی وجہ سے ہلاک کردیا اور ہمارا اور آپ کا ان سے بدلہ لے لیا۔

چال الٹی ہوگئی: آپ علیہ السَّلام نے ان کی باتیں سنی تو پھر اللہ کی بارگاہ میں وہی دعا کی: اے اللہ! اگر یہ لوگ سچے ہیں تو تُو مجھے اجازت عطا فرما کہ میں ان کے سامنے آجاؤں، اگر یہ جھوٹے ہیں تو مجھے ان سے چھٹکارا دے اور ان پر آگ پھینک کر انہیں جلا دے، اللہ نے ان پر آگ برسادی جس سے یہ سب بھی جل بھن گئے۔ دوسری جانب بادشاہ کےبیٹےکی تکلیف اور بڑھ گئی۔

بادشاہ کا نیا جال: بادشاہ کو جب خبر ملی کہ اس کے بھیجے ہوئے آدمی پھر سے ہلاک کردئیے گئے تو اس کا غصہ اور بڑھ گیا اس نے خود حضرت الیاس کی تلاش میں نکلنا چاہا لیکن بیٹے کی بیماری کے سبب رک گیا، آخر کار مکرو فریب کا نیا جال بنتے ہوئے اس نے حضرت الیاس پر ایمان لائے ہوئے ایک مومن کی طرف توجہ کی اور اسے یقین دلاتے ہوئے کہا: حضرت الیاس کے پاس جاؤ اور کہو کہ بادشاہ اور قوم نے توبہ کرلی ہے اور شرمندہ ہیں اور یہ بھی کہو کہ ہم اپنے باطل معبودوں کو چھوڑ چکے ہیں ہماری توبہ اسی وقت سچی ہوگی جب حضرت الیاس ہمارے پا س آئیں گےاور بری باتوں سے روکیں گے اور وہ باتیں بتائیں گے جن سے ہم اللہ کو راضی کرسکیں، ہم اپنے معبودوں سے الگ ہورہے ہیں جب حضرت الیاس آئیں گے تو وہی اپنے ہاتھوں سے ان معبودوں کو آگ لگائیں گے۔ اس کے بعد بادشاہ نے حکم دیا کہ سب لوگ اپنے معبودوں سے الگ ہوجائیں۔([iii])

 حضرت الیاس شاہی دربار میں: وہ مسلمان مرد پہاڑ پر چڑھ گیا اور حضرت الیاس کو آوازیں دیں، حضرت الیاس علیہ السَّلام نے اس مسلمان مرد کی آواز کو پہچان لیا اوردل میں اس سے ملاقات کا شوق پیدا ہوا، اللہ کی طرف سے وحی آئی: اپنے نیک بھائی کے پاس جاؤ اور اس سے ملاقات کرلو، چنانچہ آپ اس مسلمان کے سامنے ظاہر ہوگئے سلام اور خیر خیریت پوچھنے کے بعد فرمایا: کیا خبر ہے؟ مسلمان مرد نے کہا: ظالم بادشاہ اور اس کی قوم نے مجھے آپ کے پاس بھیجا ہے مجھے ڈر ہے کہ اگر اکیلا جاؤں گا تو وہ مجھے قتل کردیں گے اب آپ مجھے حکم دیجئے کہ میں کیا کروں، اکیلا چلاجاؤں اور قتل ہوجاؤں یا پھر سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر آپ کے ساتھ رہنے لگ جاؤں؟ آپ علیہ السَّلام پر وحی نازل ہوئی: اس مرد کے ساتھ چلے جاؤ، بادشاہ کے نزدیک اس کا عذر قابل قبول ہوجائےگا،میں بادشاہ کے بیٹے کی تکلیف کو بڑھادوں گا بادشاہ کسی اور کی طرف توجہ نہ کرپائے گااور اس کے بیٹےکو بری موت دوں گا پھرتم وہاں مت رکنا اور واپس آجانا، آپ علیہ السَّلام اس مسلمان مرد کے ساتھ چل دئیے جب بادشاہ کے سامنے پہنچے تو اللہ کریم نے بادشاہ کے بیٹے کی تکلیف کو بڑھادیا پھر اسے موت کے شکنجے میں جکڑ دیا، بادشاہ اور اس کے سب درباریوں کی توجہ حضرت الیاس علیہ السَّلام سے ہٹ گئی یوں آپ اللہ کی رحمت سے بخیر و عافیت واپس تشریف لے آئے اور اس مسلمان مرد کی جان بھی بچ گئی۔([iv])

 بی بی متیٰ نے نبی کی خدمت کا شرف پایا: پھر پہاڑ پر رہتے ہوئے آپ کو کافی وقت گزر گیا تو آپ پہاڑ سے نیچے تشریف لائے اور بنی اسرائیل کی ایک متٰی نامی مومنہ عورت کے گھر پہنچے، یہ مومنہ عورت حضرت یونس علیہ السَّلام کی والدہ تھیں، جس دن حضرت الیاس علیہ السَّلام ان کے گھر پہنچے اسی دن حضرت یونس علیہ السَّلام کی پیدائش ہوئی، بی بی متیٰ نے حضرت الیاس کی خدمت گزاری اور عزت و تکریم میں کوئی کمی نہ چھوڑی، 6 مہینے تک حضرت الیاس نے (بادشاہ اور اس کے سپاہیوں سے چھپ کر) بی بی متٰی کے گھر پر قیام فرمایا، پھر آپ نے پہاڑ وں پرجانا پسند فرمالیا۔([v])

حضرت یونس کو نئی زندگی ملی: حضرت الياس علیہ السَّلام پہاڑوں پر تشریف لے گئے اس کے کچھ دنوں بعد حضرت یونس علیہ السَّلام کا انتقال ہوگیا والدہ بی بی متیٰ بڑی غمگین ہوگئیں آخر کار حضرت الیاس کی تلاش میں نکل گئیں، پہاڑوں میں گھومتی رہیں اور اللہ پاک کے نبی حضرت الیاس کو ڈھونڈتی رہیں یہاں تک کہ ایک دن آپ علیہ السَّلام کو پالیا، عرض گزار ہوئیں: میرے بیٹے یونس کا انتقال ہوگیا ہے اور میرے کوئی اور اولاد نہیں ہے آپ رب سے دعا کیجئے کہ وہ میرے بیٹے کو زندہ کردے اور میری مصیبت کو ٹال دے، میں نے اسے ایک کپڑے میں لپیٹ کر رکھا ہے اور ابھی تک دفنایا نہیں ہے، آپ نے فرمایا: اللہ کی جانب سے مجھے جس بات کا حکم ملتا ہے میں وہی کرتا ہوں اور تمہارے بیٹے کےلئے دعا کا مجھے حکم نہیں ملا، یہ سن کر ممتا کی ماری بی بی متٰی بہت زیادہ رونے لگیں اور گڑ گڑانے لگیں، یہ دیکھ کر آپ نے پوچھا: تمہارا بیٹا کب مرا تھا؟ متٰی بی بی نے جواب دیا: سات دن ہوئے ہیں۔ آپ علیہ السَّلام متٰی بی بی کے ساتھ چل دئیے سات دن تک چلنے کے بعد ان کے گھرپہنچے، حضرت یونس کے انتقال کو اب 14 دن گزر چکے تھے، اللہ کے پیارے نبی حضرت الیاس نے وضو کیا پھر نماز پڑھی اور اللہ کریم کی بارگاہ میں دعا کی تو دعا کی برکت ظاہر ہوئی اور حضرت یونس زندہ ہوگئے، آپ علیہ السَّلام پھر سے پہاڑوں پر تشریف لے گئے۔([vi])

حضرت یسع کو جانشینی عطا ہوئی: جب قوم نے اپنے عہد کو توڑا اور کفر کو نہ چھوڑا اور اپنی گمراہی سے منہ نہ موڑا بلکہ شیطان سے ہی اپنا تعلق جوڑا تو حضرت الیاس نے قوم پر عذاب لانے کے لئے اللہ تعالیٰ سے دعا کردی، اللہ تعالیٰ نے آپ کی دعا قبول کی اور فرمایا: فلاں دن کا انتظار کرو، وہ آئے تو فلاں جگہ چلے جانا وہاں ایک چیز تمہارے پاس آئے گی اس پر سوار ہوجانا، جب مطلوبہ دن آیا تو حضرت الیاس حضرت یسع کو ساتھ لے کر اسی مخصوص جگہ پہنچ گئے جہاں پہنچنے کا حکم دیا گیا تھا، وہاں ایک سرخ رنگ کا گھوڑا آیا آپ اس گھوڑے پر سوار ہوگئے گھوڑا آپ کو لےکر چل پڑا، پیچھے سے حضرت یسع علیہ السَّلام نے پکارا: میرے بارے میں کیا حکم ہے؟ حضرت الیاس علیہ السَّلام نے اپنی چادر حضرت یسع کی طرف اچھال دی، یہ اس بات کی علامت تھی کہ حضرت یسع اب (زندہ بچ جانے والی ) قوم بنی اسرائیل میں حضرت الیاس کے جانشین ہوں گے([vii])  حضرت یسع علیہ السَّلام کو آپ کے بعد نبوت عطا کی گئی۔([viii])

قوم کو سزا ملی: اللہ تعالیٰ نے بادشاہ آجاب اور اس کی قوم پر ان کے ایک دشمن (بادشاہ )کو مسلط کردیا، بادشاہ اور اس کی قوم کو احساس بھی نہ ہوسکا کہ دشمن فوج نے انہیں گھیر لیا ہے بادشاہ  کو ایک باغ میں قتل کردیا گیا   اور اس کا  مردہ جسم اسی جگہ پڑا رہا یہاں تک کہ جسم گل سڑ گیا اور ہڈیاں بکھر گئیں۔ ([ix])

حضرت کعب الاحبار رضیَ اللہ عنہ کی روایت کے مطابق حضرت الیاس علیہ السَّلام غار میں 10 سال تک  روپوش رہے پھر اللہ پاک نے اس بادشاہ کو ہلاک کردیا اس کی جگہ نیا بادشاہ مقرر فرمایا، آپ نئے بادشاہ کے پاس تشریف لائے اور اسے اللہ واحد پر ایمان لانے کی دعوت دی تو اس نے ایمان قبول کرلیا اور اس کی قوم کا ایک بڑا حصہ ایمان لے آیا دس ہزار لوگ ایمان نہیں لائے بادشاہ نے ان سب کو قتل کروادیا۔([x])

حضرت الیاس ابھی تک حیات ہیں: ایک قول کے مطابق آپ (آخری وقت میں) بیمار ہوئے تو رونے لگے اللہ کی طرف سے وحی آئی: دنیا سے جدا ہونے پر رو رہے ہو یا مرنے کی گھبراہٹ ہے یا آگ کا خوف ہے، آپ نے عرض کی: تیرت عزت وجلال کی قسم! اس وجہ سے نہیں رو رہا، میری گھبراہٹ تو اس وجہ سے ہے کہ میرے بعد تیری حمد کرنے والے بندے تیری حمدو تعریف کریں گے اور میں تیرا ذکر نہیں کرسکوں گا، میرے بعد روزہ رکھنے والے روزہ رکھیں گے میں نہیں رکھ سکوں گا، نماز پڑھنے والے نماز پڑھیں گے میں نہیں پڑھ سکوں گا، اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: اے الیاس! میری عزت و جلال کی قسم! میں تمہیں اس وقت تک کی زندگی دیتا ہوں جب تک کہ میرا ذکر کرنے والا کوئی باقی نہ رہے یعنی قیامت تک۔([xi])

وفات: حضرت الیاس علیہ السَّلام جنگلوں اور میدانوں میں گشت فرماتے رہتے ہیں اور پہاڑوں اور بیابانوں میں اکیلے اپنے رب کی عبادت میں مصروف رہتے ہیں اور آخری زمانے میں وفات پائیں گے۔([xii])

بعض خوش نصیب حضرات حضرت سیدنا الیاس علیہ السَّلام کی زیارت سے شرف یاب ہوجاتےہیں اور آپ سے فیض بھی پاتے ہیں، دو واقعات ملاحظہ کیجئے:

نکاح کرلو: ایک شخص سیر و سیاحت میں رہتا تھا کہ اس کی ملاقات حضرت الیاس علیہ السَّلام سے ہوئی تو آپ نے اسے نکاح کرنے کا حکم دیا اور فرمایا: نکاح نہ کرنے سے زیادہ بہتر یہ ہے کہ تم نکاح کرلو۔([xiii])

ابدال کی تعداد: علامہ حافظ ابنِ عساکر شافعی (سال وفات: 571) نے اپنی کتاب تاریخِ ابنِ عساکر میں  ایک واقعہ نقل کیا ہےکہ ایک شخص وادی اردن میں جارہا تھا کہ وادی میں اس نے ایک اجنبی کو نماز پڑھتےہوئے دیکھا، اس پر دھوپ میں ایک بادل نے سایہ کر رکھا تھا،اس شخص کو یقین گزرا کہ یہ حضرت الیاس علیہ السَّلام ہیں، اس شخص نے سلام کردیا اجنبی نے نماز سے فارغ ہوکر اس کے سلام کا جواب دیا، اس نے پوچھا:اللہ آپ پر رحم کرے ! آپ کون ہیں؟اجنبی نے کوئی جواب نہیں دیا، اس شخص نے دو بارہ وہی سوال کیا تو اجنبی نے جواب دیا: میں الیاس نبی ہوں، یہ سنتے ہی اس شخص پر کپکپی طاری ہوگئی اور اسے خدشہ ہوا کہ اب اس کی عقل زائل ہوجائے گی، اس نے عرض کی:میرے لئے دعا کردیں کہ میری یہ حالت صحیح ہوجائے تاکہ آپ سے فائدہ حاصل کرسکوں، حضرت الیاس علیہ السَّلام نے اللہ کریم کو 8 مختلف ناموں سے پکارا تو وہ شخص پہلی حالت پر آگیا، اب اس شخص نے آپ علیہ السَّلام سے کچھ سوالات کئے جن کےجوابات آپ نے کچھ یوں عطا فرمائے:

سوال: کیاآج تک آپ پر وحی نازل ہوتی ہے؟

جواب:جب سے نبی آخر الزمان صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّمکی تشریف آوری ہوئی ہے وحی نہیں آئی۔

 سوال:کتنے انبیاءِ کرام حیات ہیں ؟

جواب:چار! میں اور حضرت خضر زمین پر جبکہ حضرت ادریس اور حضرت عیسیٰ آسمانوں میں علیہمُ السَّلام۔

 سوال:کیا آپ کی حضرت خضر علیہ السَّلام سے ملاقات ہوتی ہے ؟

جواب:ہاں! ہر سال عرفات اور منیٰ میں۔

 سوال:آپ دونوں کےدرمیان کیا گفتگو ہوتی ہے؟

جواب:میں ان سے کچھ آگاہی لیتا ہوں وہ مجھ سے کچھ آگاہی لیتے ہیں۔

 سوال:ابدال کتنے ہیں؟

جواب:60، ملک مصر کے بالائی علاقوں سے نہر ِفرات کے کنارے تک 50 ہیں، 7 عرب کے شہروں میں،2 مصیصہ میں جبکہ ایک ابدال انطاکیہ شہر میں ہیں،ان کے وسیلہ سے بارش برسائی جاتی ہے دشمنوں پر غلبہ دیا جاتا ہے اللہ پاک نے ان کے ذریعے دنیا کا نظام قائم رکھا ہے،(جب ان میں سے کسی ایک کا انتقال ہونے لگتا ہے تو اللہ کسی اور کو اس کی جگہ مقرر فرمادیتا ہے، پھر ) جب اللہ دنیا کو ختم کرنے کا ارادہ فرمائے گا توان تمام ابدالوں کا ایک ساتھ انتقال ہوجائےگا۔([xiv])

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

*(استاذ المدرسین، مرکزی جامعۃ المدینہ فیضانِ مدینہ کراچی)



([i])نہایۃ الارب فی فنون الادب،14/17

([ii])نہایۃ الارب فی فنون الادب،14/18

([iii])نہایۃ الارب فی فنون الادب،14/18 تا 19

([iv])نہایۃ الارب فی فنون الادب،14/20 ملخصاً

([v])نہایۃ الارب فی فنون الادب،14/20

([vi])تفسیر بغوی، 4/33،الصافات:123

([vii])نہایۃ الارب فی فنون الادب،14/23ملخصاً

([viii])مستدرک، 3/470،حدیث:4175

([ix])نہایۃ الارب فی فنون الادب، 14/23

([x])البدایۃ والنہایۃ،1/443

([xi])الجامع لاحکام القرآن،قرطبی،8/85،الصفت:123

([xii])عجائب القرآن، ص:294۔مستدرک، 3/470، حدیث: 4175۔ زرقانی علی المواہب، 7/403ملخصاً

([xiii])اتحاف،6/116

([xiv])تاریخ ابن عساکر، 9/215۔ اتحاف، 6/117، بغیۃالطلب فی تاریخ حلب،1/164


Share