سفینہ مدینہ کی یادیں

سیرتِ امیرِ اہلِ سنت

سفینۂ مدینہ کی یادیں

*مولانا محمد صفدر عطّاری مدنی

ماہنامہ اگست 2024

ایک وقت تھا کہ جب لوگ بحری جہازوں کے ذریعے بھی حج کے لئے جاتے تھے۔ عاشقِ مکہ و مدینہ، شیخِ طریقت، امیرِ اہلِ سنّت حضرت علّامہ محمد الیاس عطّاؔر قادری دامت بَرَکَاتُہمُ العالیہ سے ایک بار سوال ہوا کہ کیا آپ نے بحری جہاز کے ذریعے سفرِ حج کیا ہے؟ تو آپ نے جو اُس سفر کی یادیں بیان کیں ان کا خلاصہ کچھ یوں ہے:

اَلحمدُ لِلّٰہ میں نے سفینے کے ذریعے سفرِ کیا ہے۔ یہ غالباً 1990یا 1991ءکی بات ہے۔ سفینے پر سفر کو کم ہی لوگ ترجیح دیتے تھے کیونکہ ہوائی جہاز ساڑھے تین سے پونے چار گھنٹے میں جدہ پہنچا دیتا ہے جبکہ بحری جہاز تقریباً سات سے آٹھ دن لے لیتا ہے ۔ پھر بعض اوقات اس میں سمندری طوفان کا مسئلہ بھی رہتا ہے۔ اسی طرح شروع شروع میں کئی لوگوں کو متلی اور قے آنے لگتی ہے جس سے بیچارے مسافر بہت آزمائش میں آجاتے ہیں۔ہمیں رخصت کرنے کے لئے اتنے لوگ ساتھ آئے کہ ایک اچھا خاصا جلوس بن گیا جو کھارادر سے بندرگاہ تک ہمارے ساتھ چلا ، کھارادر سے بندرگاہ زیادہ دور نہیں ہے اور مجھے یاد پڑتا ہے کہ شاید ہم پیدل جلوس کی صورت میں وہاں پہنچے تھے۔ اُس وقت کے مناظر انتہائی رقت انگیز تھے اور عُشاق یادِ مدینہ میں آہیں بھر بھر کر رو رہے تھے۔ جب ہم سفینے میں سوار ہوئے تو باہر کھڑے اسلامی بھائیوں پر ایسی رقت طاری ہوئی کہ ایک دو افراد تو شاید بےہوش ہوگئے اور کچھ تو شوق کے عالم میں سفینے کی طرف یوں بھاگے کہ سمندر میں گرتے گرتے بچے۔ ایک سید صاحب بے تاب ہوکر یوں دوڑے کہ اگر کسی نے انہیں پیچھے سے دبوچ کر پکڑ نہ لیا ہوتا تو شاید وہ سمندر میں گر جاتے ، غالباً انہیں ہوش ہی نہیں تھا اس لئے انہیں کھینچ کر واپس لایا گیا۔ اُس وقت عشقِ رسول کا ایسا ماحول تھا۔ اِدھر سفینے نے چلنا شروع کیا اور اُدھر باہر کھڑے دیوانوں نے مچلنا شروع کیا۔ وہ بیچارے دیر تک روتے رہے اور بعض لوگوں نے تو کشتیوں کا انتظام بھی کیا ہوا تھا۔ مجھے تب پتا چلا جب یہ دیکھا کہ بعض کشتیاں ہمارے سفینے کا پیچھا کررہی تھیں کیونکہ ان دنوں جزیروں پر بھی ہمارا کام شروع ہوچکا تھا اور میں منوڑہ، بابا بھٹ اور اس طرح کے بعض جزائر میں جاجاکر سنتوں بھرے بیانات بھی کرتا تھا۔ جب بھی کسی جزیرے پر ہمارا اجتماع ہوتا تو ہم لوگ اسی طرح سفینے میں بیٹھ کر جاتے اور عموماً میں ہی وہاں جاکر بیانات کرتا تھا۔ اس اجتماع کی بہت دھوم مچتی تھی اور بعض اوقات تو اس کے لئے سفینے سجائے جاتے تھے اور کشتیاں روانہ ہوتی تھیں۔ ماشآءَ اللہ! وہ جو قافلہ بنتا تھا وہ بھی اپنی جگہ بہت قابلِ دید ہوتا تھا کیونکہ عموماً سمندر میں سب کو مزہ آتا ہے تو اس بہانے ہمارا قافلہ بھی بڑا ہوتا تھا۔ کشتیاں ہمارے سفینے کا پیچھا کرتے ہوئے آرہی تھیں، کہیں کھڑی ہوئی کشتی پر لوگ ہاتھ ہلا رہے تھے۔ یہ ایسے خوبصورت مناظر تھے کہ اگر اُس وقت مدنی چینل ہوتا تو ایک عجیب سما ں ہوتا۔ ہمارا سفینہ اب گہرے سمندر میں پہنچ چکا تھا اور کشتیاں واپس لوٹ گئی تھیں بعض اِکا دُکا کشتیاں بہت دور تک ہمارے ساتھ چلتی رہیں لیکن چونکہ کشتیوں کی طاقت کی بھی ایک حد تک ہوتی ہے، یہ زیادہ گہرے پانی میں نہیں چل سکتیں اور ان کے اُلٹنے کا خطرہ ہوتا ہے لہٰذا یہ اپنے اپنے پانیوں کے حساب سے واپس لوٹ گئے۔ جس سے جتنا ہوسکا اس نے مجھے دور تک رخصت کیا۔ (امیرِ اہلِ سنت کی کہانی انہی کی زبانی ، قسط 28)

بحری سفر کے یادگار شب وروز

سفینے میں دو مسجدیں تھیں جن میں سے ایک میں ہم نے مصلیٰ سنبھال لیا اور وہاں نمازیں پڑھاتے تھے۔ سفینے پر ہمارا اجتماع ہوتا تھا جس میں ہم بیانات کرتے اور حج کا طریقہ بتاتے تھے۔ پھر اسلامی بھائی سفینے میں میرے بیان کا کیسٹ بھی چلاتے تھے۔ سب لوگ بہت متأثر تھے کہ یہ کون لوگ آگئے، بعض تو حیران ہوتے تھے کہ ہم نے کبھی ایسے حاجی نہیں دیکھے تھے، تم لوگ عجیب ہو جن کا یوں رونا دھونا اور اس طرح کا انداز ہے۔ بعض بیچارے تو ہماری بہت خدمت بھی کرتے تھے۔ یہ سفینہ بہت بڑا تھا اور ہم نے اس کے اندر کیبن لئے تھے لیکن جو لوگ عرشے پر ہوتے تھے اُن کی حالت بہت بری تھی۔ بیچاروں کو اُلٹیاں اور چکر آتے تھے اور دو تین دن تک انہیں کافی تکلیف رہی۔ ہمارے ساتھ جو مسافر تھے ان میں سے بھی اکثر بلکہ میرے اور ایک دوسرے اسلامی بھائی کے علاوہ سبھی لوگ بیمار ہوگئے اور برداشت نہیں کرسکے۔ جن کا پہلا سمندری سفر ہو وہ اس طرح کی آزمائشوں سے گزرتے ہیں لیکن جو عادی ہوجائیں انہیں پتا بھی نہیں چلتا۔اگر کبھی آپ لوگوں کو بھی سفر کے دوران اس طرح اجتماع کرنے یا بیانات چلانے کا موقع ملے تو ضرور کرنا چاہئے مبلغ ہر جگہ مبلغ ہوتا ہے، جہاں موقع ملے نیکی کی دعوت سے نہ رُکے، ہوسکے تو موقع نکالے اور نیکی کی دعوت پیش کرنے کے حالات بنائے۔

سفینے کا انوکھا مسافر

ہمارے سفینے میں سفید لباس میں ملبوس، سنّتوں کا پابند ایک عمامے والا اسلامی بھائی بھی تھا جو اپنے طور پر (یعنی انفرادی طور پر) حج پہ جارہا تھا لیکن ہم نے اسے بھی اپنے قافلے میں شامل کرلیا ۔ وہ اتنا سادہ تھا کہ اگر میں اُن کی سادگی کے بارے میں آپ کو بتاؤں تو آپ اچھل پڑیں گے کہ کیا ایسے لوگ بھی دنیا میں پائے جاتے ہیں۔ یہ بہت غریب شخص تھا، کسی نے اس بیچارے کو پیسے دیئے تو یہ بھی مدینے کا مسافر بن گیا۔ یہاں کراچی میں اُس کا یہ حال تھا کہ اپنے ساتھ ایک تھیلی میں مٹی کے برتن رکھتا تھا اور جہاں کھانے کا موقع آتا وہاں عام برتنوں کے بجائے اپنے مٹی کے برتن نکال کر اُن میں کھانا کھاتا۔ یہ بیچارہ اتنا سیدھا اور شریف تھا کہ اسے کمرے میں لگے ہوئے اے سی کے بارے میں پتا نہیں تھا کہ اس کو اے سی بولتے ہیں۔ اس کی سادگی کے اور بھی بہت سے واقعات تھے لیکن وہ سب مجھے یاد نہیں ہیں، اللہ پاک اُس کے صدقے میری مغفرت فرمائے۔ جب ہم نے اسے سفینے پر دیکھا تو اپنے ساتھ شامل کرلیا کیونکہ میں نے پہلے بھی یہ سفر کیا تھا اور مجھے پتا تھا کہ وہاں بہت آزمائشیں ہوتی ہیں، کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ بیچارہ گُم ہوجائے کیونکہ اُسے پتا نہیں تھا کہ وہاں جا کر کیا کرنا ہے اس لئے میں نے کہا کہ تم ہمارے ساتھ ہی رہو۔

(امیرِ اہلِ سنت کی کہانی انہی کی زبانی ، قسط 28، قسط29)

سفینۂ مدینہ میں لکھا گیا کلام(منتخب اشعار)

خُوشا جھومتا جارہا ہے سفینہ

پہنچ جائیں گے اِنْ شاءَ اللہ مدینہ

نہیں روتے عُشّاق دنیا کی خاطر

رُلاتی ہے اُن کو تو یادِ مدینہ

اَب آیا کہ اَب آیا جَدّہ کا ساحِل

اَب آئے گا مکّہ چلیں گے مدینہ

میں مکّے میں جَاکر کروں گا طواف اور

نصیب آبِ زم زم مُجھے ہوگا پینا

تڑپ اٹھے آقا کے دیوانے عطّارؔ

مدینے کی جانب چلا جب سفینہ

(وسائلِ بخشش(مرمم)، ص 370)

یہ بڑا ہی پُر کیف سفر تھا، جب جہاز میں اعلان ہوا کہ اب احرام باندھ لو تو حاجی اپنے اپنے کمروں سے احرام باندھ کر باہر نکلے اور لبیک کی صدائیں بلند ہوئیں اُس وقت کا منظر بیان سے باہر ہے۔ ایک سی مین(Seaman) ان چیزوں سے متأثر ہوکر ہم سے بڑی محبت کرنے لگے اور ہماری بہت خدمت کرتے تھے۔ ایک بار انہوں نے مجھ سے کہا کہ مجھے معاف کردو، میں آپ لوگوں کی بہت مخالفت کرتا تھا، مجھے پتا نہیں تھا کہ تم لوگ ایسے ہو۔ یوں اَلحمدُ لِلّٰہ صرف ہمیں دیکھ کر ہی اُس کی غلط فہمی دور ہوگئی۔(حاجی عبد الحبیب عطّاری نے بتایا:)اُس سی مین کے بیٹے ”رضوان بھائی“ آج دعوتِ اسلامی کے مبلغ ہیں اور انہوں نے اپنے والد سے اُس سفینے کا جو احوال سنا وہ سنتے ہیں۔ (رضوان عطّاری نے عرض کی:) امیرِ اہلِ سنّت نے جس سفینے کا ذکر کیا ہے اُس کا نام ”سفینۂ شمس“ تھا میرے والد صاحب اس سفینے میں ”سی مین“ تھے، والد صاحب نے بتایا تھا :” اُس جہاز کا کیپٹن بھی امیرِ اہلِ سنت کو دیکھ کر حیران تھا کہ میں کئی بار حاجیوں کو لے کر گیا ہوں اور خود بھی حج کیا ہے لیکن ایسا شخص پہلی بار دیکھا ہے جو نمازِ فجر میں لوگوں کو اُٹھارہا ہے۔“

امیرِ اہل ِ سنّت دامت بَرَکَاتُہمُ العالیہ نے ارشاد فرمایا: اس سفر سے واپسی پر میں نے جدہ شریف میں یہ کلام لکھا تھا جسے ہمارے واپس پہنچنے پر حاجی مشتاق عطّاری رحمۃُ اللہ علیہ نے کیماڑی بندرگاہ پر پڑھا تھا:

آہ! مسجدِ نبوی، ہائے گنبدِ خَضرا

آہ! روضۂ انور، میں مدینہ چھوڑ آیا

(وسائلِ بخشش(مرمم)، ص 192)

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

*(فارغ التحصیل جامعۃ المدینہ، شعبہ دینی کاموں کی تحریرات ، المدینۃ العلمیہ فیصل آباد)


Share